اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم قطر سے ایل این جی گیس معاہدے پر کو ئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے ،وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ یہ قیمت کنٹریکٹ پر شفاف نہیں ہے،وزیراعظم نے پارلیمنٹ کا حق مجرو ع کیا ہے،انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ قیمت چھپائی گئی ہے،فروری 2016میں یہ معاہدہ ہوا س وقت کہا گیا کہ یہ دس سال کا معاہد ہ ہے،جبکہ آج بتایا گیا ہے کہ یہ پندرہ سالہ معاہدہ ہے ،کمرشل کنٹریکٹ کو چھپایا جارہا ہے،
کیونکہ اس کے اندرکرپشن ہے، اس کا مطلب ہے حکومت کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں،پندرہ سال کے لیے قوم کو گروی ڈالا گیا ہے،پارلیمنٹ کے اندر اس کا احتساب ہوگا ان شرائط پر معاہدہ قابل قبول نہیں،معاہدے کی تمام شقیں اور دورانیہ قوم کے سامنے لانا ضروری ہے،آئین سے کوئی معاہدہ سبقت نہیں لے سکتا ۔ان خیا لات کا اظہار سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن،شیری رحمان،تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی اور پاکستان مسلم لیگ (ق)کے سینیٹر کامل علی آغا نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔سینیٹراعتزاز احسن نے کہا کہ آج وزیراعظم سینٹ میں تشریف لائے تھے،سینیٹر شیری رحمان نے قطر سے ایل این جی گیس معاہدے کے معاملے پر ایک توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا تھا، جس میں دریافت کیا گیا کہ معاہدے کے لیے کیا شرائط طے ہوئیں،پاکستان حکومت نے کیا معاہد ہ کیا،اور مذاکرات کس عمل سے گزرے لیکن اس پر کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا،اس موقع پر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ایک سال پہلے شاہد خاقان عباسی جب وزیر تھے،تو بھی ایک تحریک التواء پیش ہوئی تھی،جس پر بحث بھی ہوئی،لیکن کوئی جواب نہیں ملا،فروری 2016میں یہ معاہدہ ہوا اس وقت نوازشریف وزیراعظم تھے،اس وقت کہا گیا کہ یہ دس سال کا معاہد ہ ہے،
جبکہ آج بتایا گیا ہے کہ یہ پندرہ سالہ معاہدہ ہے،شیری رحمان نے کہا کہ ہمارے سوالات کا جواب نہیں دیا گیا حکومت سے حکومت کیے گئے معاہدے ڈھکے چھپے نہیں ہوسکتے،وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ یہ قیمت کنٹریکٹ پر شفاف نہیں ہے،وزیراعظم نے پارلیمنٹ کا حق مجرو ع کیا ہے،انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ قیمت چھپائی گئی ہے،وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ شاید ہم کنٹریکٹ کو شفاف نہیں کرسکتے ،اس موقع پر میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ احسن اقبال نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کو وہ رتبہ ملنا چاہیے،
جو افواج اور عدلیہ کا ہے،اعظم سواتی نے کہا کہ کمرشل کنٹریکٹ کو چھپایا جارہا ہے،کیونکہ اس کے اندرکرپشن ہے، اس کا مطلب ہے حکومت کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں،اس موقع پر گفتگوکرتے ہوئے مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا ہے کہ پندرہ سال کے لیے قوم کو گروی ڈالا گیا ہے،سب سے بڑی کرپشن ہے کہ یہ بڑی قیمت پر خریدی ہے جب کہ اس کی ٹرانسپورٹیشن بھی اپنے گلے میں ڈالی ہے،انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اندر اس کا احتساب ہوگا ان شرائط پر معاہدہ قابل قبول نہیں،
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ کمپنیز کے درمیان معاہدے پر پیپررولز لاگو ہوتے ہیں،آرٹیکل19اے کے تحت چاہے دو حکومتوں کے درمیان بھی معاہدہ ہو،تب بھی ضروری ہے کہ شفافیت سامنے آئے،معاہدے کی تمام شقیں اور دورانیہ قوم کے سامنے لانا ضروری ہے،آئین سے کوئی معاہدہ سبقت نہیں لے سکتا ،انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے قابل ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کیے گئے ہیں،جب کہ ٹرائل کورٹ کو ضمانت لینے کا اختیار ہی نہیں،انہوں نے کہا کہ سابق جج چیئرمین نیب بنے ہیں ان کے لیے بڑا امتحان ہے کہ سندھ اور پنجاب اور مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں کوئی امتیاز نہ ہو،یہاں امتیازی سلوک ہورہا ہے۔