عمران خان نے 20ستمبر2017ء کو کراچی میں الیکشن کمیشن کے بارے میں برا بھلا کہا تھا، الیکشن کمیشن نے ان خیالات کو اپنی توہین سمجھا چنانچہ عمران خان کو نوٹس جاری کر دیئے گئے‘ الیکشن کمیشن نے بار بار عمران خان کو طلب کیا لیکن عمران خان پیش نہیں ہوئے ‘ کمیشن نے تنگ آ کر 12 اکتوبرکو عمران خان کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دے دیا‘ آج عمران خان کی تاریخ تھی‘ خان صاحب نے آج پیش ہو کر اپنی دونوں گستاخیوں پر کمیشن سے معافی مانگ لی‘
کمیشن نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کر دیا‘ یہ الیکشن کمیشن کے پانچوں ارکان کا بڑا پن ہے‘ ہم اس پرانہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کریں وہ کم ہو گا لیکن میں ساتھ ہی ایک چھوٹی سی گستاخی کرنا چاہتا ہوں جب الیکشن کمیشن کے ارکان کی توہین ہوتی ہے تو کمیشن ملزم کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دے دیتا ہے لیکن جب ارکان اسمبلی اور الیکشن کے امیدوار کمیشن کے اصولوں کی ننگی خلاف ورزی کرتے ہیں تو اس وقت کمیشن کی توہین کیوں نہیں ہوتی‘ الیکشن کمیشن نے الیکشن مہم میں اخراجات کی ایک حد طے کر رکھی ہے‘ یہ حد وفاقی الیکشن کیلئے 25اور صوبائی کیلئے 15 لاکھ روپے ہے‘ پاکستان کے ہر الیکشن میں اس حد کی وائلیشن ہوتی ہے‘ ہر امیدوار حلف نامہ جمع کروا کر لاکھوں کی جگہ کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے‘ آپ این اے 122‘ این اے 120 اور لودھراں کے این اے 154کے ضمنی الیکشنوں کو لے لیجئے ان الیکشنوں میں کروڑوں روپے لگائے گئے‘ لودھراں کے الیکشن سے پہلے وزیراعظم نے حلقے کیلئے اڑھائی ارب روپے کے ترقیاتی فنڈزتک کا اعلان کر دیا تھا‘ آج این اے 4 کا الیکشن تھا‘ اس الیکشن میں بھی الیکشن ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی لیکن الیکشن کمیشن خاموش رہا‘ اس نے آج تک اپنے ضابطوں کی توہین پر کوئی نوٹس لیا‘
کسی کی گرفتاری کا حکم دیا اور نہ ہی کسی سے معافی نامہ طلب کیا‘ کیا یہ تضاد نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان پر اعتراض کیا جائے تو توہین ہو جاتی ہے اور اگر الیکشن کے سارے ضابطے توڑ دیئے جائیں‘ حلقوں میں پانی کی طرح پیسہ بہا دیا جائے یا حکومتیں کھمبے‘ ٹرانسفارمرز اور پائپوں کے انبار لگا دیں‘وزیراعظم اڑھائی ارب روپے کا پیکج دے دیں تو کوئی توہین ہوتی ہے‘ کوئی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی نوٹس ہوتا ہے‘ کیوں؟ جناب کیوں؟۔