لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کی سربراہی اور کنٹرول واجد ضیاء نہیں بلکہ کوئی اور کر رہا تھا ،جس انکوائری سے پہلے اس کے نتیجے ،ریفرنس بننے اور یہ کس عدالت میں فائل ہوگا فیصلہ ہو چکا ہو تو ایسے کسی عمل میں شامل ہونا بے سود ہے تاہم اگر ہمیں کسی بھی مرحلے پر انصاف کا دروازہ کھلتا ہوا نظر آیا تو ہم یقیناًدیکھیں گے ، شریف خاندان کی طرف سے نیب کے تمام نوٹسز کے تحریری جوابات دئیے جارہے ہیں
اور ہم عدالت عظمیٰ سے بڑے ادب ، احترام سے درخواست کرتے ہیں کہ نظر ثانی درخواست میں ہماری گزارشات کو دیکھا جائے ۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق ، صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان اور شریف خاندا ن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے لاہور پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا ۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ قوم گواہ ہے کہ ہم نے اعتراضات اور تحفظات کے باوجود قانون کی پاسداری اور عدالتی احکامات کی تکمیل اور احترام میں کمی نہیں آنے دی اور سر تسلیم خم کیا ۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی تحقیقات اور ریفرنس دائر کرنے کے لئے باقاعدہ میکنزم ہے لیکن یہاں عدالت کا حکم ہے کہ ریفرنس بناؤ اور فیصلہ کرو ، اس پر سوال پیدا ہوتا ہے اور اس پر سوال کرتے رہیں گے، امتیازی قوانین اور فیصلے صرف نوا ز شریف اور ان کے خاندان کے لئے کیوں ہیں ،اس کا اور کروڑوں لوگوں پر کیوں اطلاق نہیں ہوتا ؟، ایک معزز جج کو مانیٹرنگ جج کے نام پر بٹھا دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ شریف خاندان نیب میں پیش نہیں ہو رہا اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ہے یہ غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہے ، ہم اس سے پہلے جانتے ہوئے بھی کانٹوں کے راستے پر چلے اور ہم نے یہ تاثر نہیں دیا کہ ہم کہیں بھی عدالتی بالا دستی اور عملداری سے رو گردانی کر رہے ہیں حالانکہ ہم اذیت اور کرب سے گزرے اور نا مانتے ہوئے بھی چلتے رہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آئندہ کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ۔
عدالت عظمیٰ سے استدعا کر رہے ہیں کہ فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں ۔ اگر ہمیں انصاف کا دروازہ کھلتا ہوا نظر آتا ہے ہم یقیناًدیکھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے پہلے بھی اقتدار سے بے دخلی، قید و بند او رجلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ اللہ کرم کرے اور جب لوگ ساتھ ہوں تو کچھ نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز شریف چند دن تک وطن واپس لوٹ آئیں گے او رجو لوگ بیگم کلثوم نواز کے باہر جانے پر باتیں کر رہے تھے انہیں اب شرم آ جانی چاہیے ۔
نواز شریف کی پہلی ذمہ داری ان کی اہلیہ ہیں اور انہیں تیمار داری کیلئے ضرورجانا چاہیے لیکن ابھی اس کے لئے کوئی حتمی دن طے نہیں ہوا ۔ انہوں نے سازش کے حوالے سے کہا کہ وقت آنے پر اور آہستہ آہستہ بتاتے جائیں گے ۔ خواجہ سعد رفیق نے مزید کہا کہ ایسا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے جس سے نا انصافی کی بو آتی ہو اور لوگ بھی اسے تسلیم نہ کریں ،ہم بھی پی سی او کی اور دیگر باتیں کر سکتے تھے ہمیں باتیں کرنی آتی ہیں لیکن ہم کوئی تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہتے تھے
لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں بار بار نا انصافی کی چکی میں پیسا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی رابطہ مہم کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے حوالے سے مشاورت جاری ہے اور جلد آئندہ کے پروگرام کا اعلان کریں گے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آرمی چیف مایہ ناز سپہ سالار ہیں اور ان کا رخ اور دباؤ جمہوریت کی طرف ہے ، ہم نے ان سے متعلق کبھی اشارے کنارے میں بھی بات نہیں کی ۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ ہمارے سوالات ، شکایات اور تحفظات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے ، ہم عدالت سے تصادم او رٹکراؤ کی بات نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کا پاکستان کو نقصان ہوا ہے ، عوام بھی اس فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں۔ بیرون ملک سے بھارت کی تعریفیں کی گئی اور ہماری قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا یہ بات قابل توجہ ہے کہ پاکستان خطرات میں گھرا ہوا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ شروع کہاں پر ہوا لیکن ختم اقامہ پر ہوا ۔ اب این اے 120میں عوامی عدالت کا فیصلہ بھی آنے والا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور آصف زرداری میں یہ دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کون زیادہ مسلم لیگ کے ووٹ توڑتا ہے ۔ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ نواز شریف مقبول سیاسی قائد ہیں اور ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کے جذبات ، کمٹمنٹ اور محبت ان کے ساتھ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسی انکوائری جس کے شروع ہونے سے پہلے اس کا نتیجہ جاری ہو چکا ہو اس کے سامنے پیش ہونے سے کیا حاصل ہوگا جس کا آغاز ہونا ہے اس کے نتیجے کا اعلان تو پہلے ہی ہو چکا ہے کہ ریفرنس بنے گا اور یہ یہ فیصلہ بھی ہو چکا ہے کہ یہ کس عدالت میں فائل ہوگا ایسے کسی عمل میں شامل ہونا بے سود ہے اور اس کا کچھ حاصل نہیں ۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ ان معاملات کو اس مرحلے پر عوام کے سامنے رکھا جائے اور یہ تاثر پیدا نہ ہو کہ نواز شریف یا ان کا خاندان رول آف لاء کے راستے میں رکاوٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالتوں کے اوپر پہلے ہی ایڈ منسٹریٹو جج ہوتا ہے جو ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے لیکن اس کیس میں عدالت عظمیٰ کا ججز بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اراکین جے آئی ٹی کی بہت تعریفیں ہوئی ہیں اور رپورٹ کو بڑی پذیرائی ملی ہے ، واجد ضیاء ایک پولیس آفیسر ہیں اور ان کی ساری زندگی دفاترمیں گزری ہے انہوں نے کبھی ایک میاں بیوی کے جھگڑے کی انکوائری نہیں کی اور انہیں اتنے بڑے کیس کی انکوائری دیدی گئی ہے ۔یہ فیصلہ ہوا ہے کہ شریف خاندان ایسی کسی انکوائری کا حصہ نہیں بنے گا، ہر ذی شعور شخص دیکھ رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا بڑا کریڈیبل فیصلہ تھاکہ نیب مر چکا ہے بلکہ دفن ہو چکا ہے
لیکن مردے کے متعلق یہ خبر ہے کہ وہ بڑی برق رفتاری سے کام کر رہا ہے جو دفن ہو چکا ہے اس مردے میں کہاں سے روح پھونک دی گئی ہے ؟ ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں (ن) لیگ نے بطور سیاسی جماعت فیصلہ کیا ہے ایسا عمل جو کہ انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتا ہو اسے ہر مرحلے پر عوام کے سامنے رکھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ کوشش انصاف کے حصول کے لئے کر رہے ہیں اوریہ احتجاج یا سیاسی ایجی ٹیشن نہیں ہے ، انصاف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے ۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے 28جولائی کے فیصلے میں یہ حکم ہے ہی نہیں کہ مزید تحقیقات ہونی ہیں ۔ نیب کو یہ کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کوموصول ہونے والی شہادت کی بنیاد پر ، اثاثوں سے متعلق ایف آئی، نیب یا بیرون ممالک لکھے گئے خطوط سے جو ملا ہے اس کے اوپر چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرے حالانکہ نیب آرڈیننس کے مطابق کسی کے خلاف درخواست آنے اور ا س کے بعد ریفرنس دائر ہونے تک کا باقاعدہ میکنزم ہے
لیکن اس کیس میں کسی بھی قانون کو مد نظرنہیں رکھا گیا اور میاں نواز شریف او ران کے خاندان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ نیب کے افسرا ن انتظار کرتے رہے اور کوئی پیش نہیں ہوا بلکہ نیب کی طرف سے جو بھی نوٹسز بھجوائے گئے ان پر تحریری جوابات نیب کو بھجوا ئے جاتے رہے ہیں اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا کہ کوئی شخص اپنے وکلاء کے ذریعے اپنے جواب داخل کرے ۔