اسلام آباد (آن لائن )وفاقی شرعی عدالت نے ملک بھر سے سودی نظام کے خاتمے کے لئے دائر درخواستوں کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے۔ چیف جسٹس ریاض احمد خان کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان، جسٹس شیخ نجم الحسن اور جسٹس ظہور احمد پر مشتمل چار رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو عدالتی معاون ڈاکٹر محمد انور شاہ نے قرآنی آیات
اور مفسرین کی طرف سے رباہ، انٹرسٹ اور سود کے الفاظ کی تعریفوں کے حوالے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ بائبل میں بھی حکم ہے کہ عیسائی اپنے عیسائی بھائی کو سود نہ دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ رباہ، انٹرسٹ اور سود ایک ہی لفظ کے مختلف معانی ہیں تو عدالتی معاون نے جواب دیا کہ تینوں الفاظ کے لفظی معنی ایک ہی لیکن اصطلاحی معانی الگ الگ ہیں عدالت نے استفسار کیا کہ سود کا لفظ کہاں سے آیا۔ معاون کا کہنا تھا کہ سود فارسی لفظ ہے جبکہ رباہ عربی لفظ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فارسی میں سود کے لفظی معنی کیا ہیں؟ عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ اسلامی تاریخ کے مختلف مسالک کے علماء کی طرف سے ان الفاظ کے مختلف معانی دیئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب سود کی ممانعت کا حکم ہوا تو اس وقت کی معیشت آج کی معیشت سے مختلف تھی۔سوال یہ ہے کہ اس وقت کے نظام کو آج کے وقت میں کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ پہلے رباہ، سود اور انٹرسٹ کی تعریف کا تعین ہونا چاہئے۔ عدالتی معاون نے کہا کہ موجودہ بینکنگ نظام اس زمانے میں تو موجود نہیں تھا لیکن کیا تجارت اور لین دین کی تعریف موجودہ دور میں تبدیل ہو گئی ہے۔ غبن، دھوکہ اور تجارت کی آج بھی تعریف وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ پہلے اونٹ پر تجارت ہوتی تھی آج کل جہازوں پر ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ
اس وقت افراط زر کی شرح شاید 6 فیصد ہے لیکن اگر آج ایک شخص 100 روپے لیتا ہے تو کیا وہ ایک سال کے بعد 100 روپے دے گا یا 106 روپے ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں انٹرسٹ کی تعریف سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ سمجھی جاتی ہے۔ عدالتی معاون نے اپنے ایک نقطے پر دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے نقطے پر دلائل وہ آئندہ سماعت پر دیں گے جس پر عدالت نے مقدمے کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی۔