اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)کوئی دو رائے نہیں کہ حرمت رسول ﷺ پر ہماری جان بھی قربان ۔ آقا کریم ﷺ کی عزت و حرمت پر کوئی بات کرے ہمیں بالکل گوارا نہیں ۔ پورا پاکستان اس معاملے پر یکجا ہے ۔ اس حوالے سے جسٹس شوکت عزیز کے اقدامات کو بے حد سراہا جا رہا ہے ۔ نجی ٹی وی چینل پر ڈاکٹر شاہد مسعود کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ توہین رسالت پر ایک لمبے عرصے بعد اچانک معاملہ اٹھایا جانا ایک اشارہ ہے ۔
انہوں نےکہا کہ اس معاملے میں کچھ سوالات بھی جنم لیتے ہیں کہ حکومت اتنا عرصہ خاموش کیوں رہی ؟ آخر اس کے پیچھے وجہ کیا تھی ؟ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ حکومت نے توہین رسالتﷺ کے مرتکب پیجز کو بند کرنے کی آڑ میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ توہین رسالتﷺ کا معاملہ اٹھایا گیا تو حکومت نے خود اس معاملے کو خاموشی سے جانے دیا جبکہ حکومتی وزرا نے بھی اس پر کوئی بیان نہیں دیا۔بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایکشن لیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی آبادی کے ڈھائی سے تین کروڑ افراد فیس بُک استعمال کر رہے ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ سوشل میڈیا بین کرنےکی آڑ میں حکومت کا اپنا مفاد ہے ۔ توہین آمیز فیس بک پیجز خود بنائے گئے اور انہیں خاموشی سے چلنے دیا گیا ۔پھر ایک لائحہ عمل کے فیس بک بند کرنے کے خلاف معاشرے میں ایک ہیجان برپا کیا گیا تاکہ فیس بک جو اس وقت خبر رسانی کا سب سے تیز ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسے پاکستان میں بلاک کیا جائے جس سے حکمران طبقے کا کچا چٹھا کھل کر عوام کے سامنے نہ آنے پائے ۔ شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ اس بات کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو توہین رسالت کے پیجز چلتے رہے مگر حکومتی کسی ایک وزیر کا بیان بھی سامنے نہیں آیا ۔ کوئی ایک لفظ تک نہ بولا ۔