اسلام آباد(جاوید چوہدری )آج پانچویں روز بھی ملک کے دو صوبوں میں خوفناک دھماکے ہو گئے‘ آج دن سوا چار بجے بلوچستان کے علاقے آواران میں دہشت گردوں نے فوج کے قافلے کے راستے میں بارودی سرنگ ۔۔بچھا دی‘ بارودی سرنگ پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن اور دو جوان شہید ہو گئے جبکہ رات سات بجے سیہون شریف سندھ میں حضرت لعل شاہ باز قلندر کے مزار پر بم دھماکہ ہو گیا‘ دھماکے میں اب تک 50لوگ
شہید اور250سے زائدزخمی ہو ئے ہیں‘ دہشت گرد جانتے تھے جمعرات کی شب دربار کیلئے بہت اہم ہوتی ہے‘ جمعرات کو پورے سندھ سے سینکڑوں زائرین سیہون شریف آتے ہیں اور دربار پر دھمال ڈالتے ہیں‘ دہشت گردوں نے زیادہ نقصان پہنچانے کیلئے جان بوجھ کر آج کی رات منتخب کی‘ یہ خبر جوں ہی عام ہوئی پورے ملک میں صف ماتم بچھ گئی‘ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے سے ثابت ہو گیا‘ دہشت گرد پورے ملک میں پھیل چکے ہیں اور یہ ایک جامع پلاننگ کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں‘ پہلے کراچی میں میڈیا کو ٹارگٹ کیا گیا‘ پھر جنوبی وزیرستان میں ایف سی کو نشانہ بنایا گیا‘ پھر لاہور میں پولیس کو ٹارگٹ کیا گیا‘ پھر مہمند ایجنسی میں پولیٹیکل انتظامیہ کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایاگیا‘ پھر پشاور میں سول ججز کی وین پر خودکش حملہ کیا گیا‘ پھر آواران میں فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گیا اور آج رات سندھ کی سب سے بڑی درگاہ کو بھی ٹارگٹ بنا دیا گیا‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ کیا یہ ثابت نہیں کرتا پاکستان کے دشمن مکمل طور پر ایکٹو ہو چکے ہیں‘ یہ پاکستان اور پاکستانیوں کو زیادہ گنجائش دینے کیلئے تیار نہیں ہیں لیکن کیا ہم بھی سیریس ہیں‘ یہ سیریس سوال حکومت اور اپوزیشن دونوں سے سیریس جواب کا تقاضا کر رہا ہے اور ہمیں بدقسمتی سے حکمران کلاس میں سیریس نیس نظر نہیں آتی‘ فوجی عدالتوں کی مدت کو ختم ہوئے آج چالیس دن ہو چکے ہیں‘ آج فوجی عدالتوں کی توسیع کیلئے پانچویں میٹنگ ہوئی لیکن یہ میٹنگ بھی کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی‘ آپ حکومت کی سنجیدگی ملاحظہ کیجئے‘
ہم نے دہشت گردوں کو سزا دینے کیلئے دو سال میں عدالتی نظام میں کوئی اصلاح نہیں کی‘ ہم دو سال فوجی عدالتوں پر تکیہ کر کے بیٹھے رہے اور جب یہ مدت بھی ختم ہو گئی تو ہم نے توسیع کو متنازعہ بنا دیا‘ قوم جانتی ہے سیاستدان بالآخر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ اگر یہ کرنا ہی ہے تو پھر دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔لیکن یہ شاید ہماری قومی عادت ہے‘ ہم جب تک جوتے نہ کھا لیں‘ ہم پیاز پورے نہیں ہونے دیتے‘ہم ہمیشہ فوری فیصلوں کیلئے بڑے حادثوں کا انتظار کرتے ہیں‘ یہ ہماری عادت بنتی چلی جا رہی ہے‘ ہم سیریس ایشوز پر سیریس کب ہوں گے‘نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے اور اس پر پوری طرح عمل کب ہو گا‘ ہم آج کے پروگرام میں یہ ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔