اسلام آ باد ( آ ئی این پی ) حکومتی اتحادی پختو نخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے فاٹا اصلا حا ت رپورٹ کو غلط بیانی قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ فاٹا اصلاحات کے حوالے سے فا ٹا کے عوام سے پوچھا تک نہیں جارہا ہے ،فاٹاکو دہشت گردوں کا مرکز قرار دینے والوں کی مذمت کرتے ہیں،فاٹا کا کوئی فرد جمہوری اصلاحات کے خلاف نہیں،
عجلت میں ایسا فیصلہ نہ لیا جائے جس سے ملک کو نقصان ہو،ہم چاہتے ہیں کہ یہ کار خیر فاٹاکی عوام کی مرضی سے ہو، پورے فاٹا کا دورہ ا آٹھ دن میں کر کے سفارشات تیار کی گئیں،پاکستانی فوج کوآپریشن کے دوران فاٹا کے لوگوں کا تعاون حاصل ہے جبکہ سابق سفیر ایاز خان وزیر نے کہا کہ فاٹاکے کے پندرہ ملین افراد فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے،کمیٹی وہاں کے نمائندوں سے ملتی تو مسائل پیدا نہ ہوتے، کمیشن میں کوئی فاٹا کا ممبر شامل نہیں تھا،ہم حکومت سے کوئی ایسی چیزیں نہیں مانگیں گے جو جمہوریت کے منافی ہو،اگر فاٹا کو صوبہ بنانا ہے یا صوبے میں شامل کرنا ہے ہم سے فیصلہ لیا جائے،اصلاحات سے کوئی مسئلہ نہیں باہر کے فیصلوں سے مسائل پیدا ہوئے ،پارلیمینٹیرین کی کمیٹی بنائی جائے جو گورنر سمیت سب کا محاسبہ کرسکے،باہر کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہی آج ہم بھگت رہے ہیں، سینیٹر ہلال الر حمن خان نے کہا کہ قبائلی لوگ پہلے تنگ ہیں انکی مشکلات مزید بڑھائی جارہی ہیں، ہمیں یقین دھانی کروائی گئی کہ اصلاحات کے حوالے سے ہماری رائے شامل کی جائے گی۔ پیر کو نیشنل پریس کلب اسلام آ باد میں پختو نخوا ملی عوامی پارٹی کے چئیرمین و ممبرقومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے سینیٹر ہلال الر حمن اور سابق سفیر ایاز خان وزیر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا
کہ افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے فرنٹ مین کا کردار اداکیا۔فاٹانے مادر وطن کے لئے کسی بھی قربانی سے کبھی دریغ نہیں کیا۔پختو ن لوگ محب الوطن ہیں۔فاٹا کا علاقہ,علاقہ غیر نہیں ہے۔آج فاٹاکے اصلاحات کی بات ہورہی ہے۔ہم سے اس حوالے سے نہیں پوچھا گیا۔فاٹاکے نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس کرنا چاہتے ہیں۔اسی سلسلے میں تیس کو اسلام آباد میں اجلاس ہوگا۔
حکومت پاکستان اور تمام پارٹیز نے سب کوفاٹاکے لوگوں کو یقین دلانا ہوگا کہ یہ اپ کی ایجنسی ہے۔فاٹاہمارے صوبے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔آبادی بھی زیادہ ہے۔فاٹاکے لوگوں کو باغی کہا جاتا ہے اور دوسرے طرف ایک لاکھ فاٹاکے لوگ سیکیورٹی کے لیے بھرتی کی جاتی ہے۔جن سے سیکیورٹی معلامات حل کروائے جاتے ہیں۔فاٹاکے لوگ خیبر پختو نخوا سے منسلک ہیں۔
فاٹا میں جو ہوگا اس کے اثرات افغانستان اور خیبر پختو نخوا پر پڑیں گے۔جو وہ چاہتے ہیں ان کی بات سنی چاہیے۔آپ بلین ڈالرز انوسٹ کرنا چاہتے ہیں۔تو دوسری طرف وہاں کے نمائندگان کی رضامندی سے کی جائے۔ساؤتھ وزیرستان میں کونسے قبائل رہتے ہیں کسی کو علم میں نہیں۔ہم انتہا پرست نہیں ,نہ ہی ہنگامہ آرائی کرنا چاہتے ہیں۔سابق سفیر ایاز خان وزیر نے کہا وہاں کے پڑھے لکھے افراد کی مشاورت سے تمام امورسے سرانجام دیے جائیں ۔
فاٹاکے کے پندرہ ملین افراد کی مشاورت سے ہر کام کیا جائے۔وہاں کے لوگوں کو اصلاحات میں شامل کیا جائے۔کمیٹی وہاں کے نمائندوں سے ملتی تو مسائل پیدا نہ ہوتے۔اس کمیشن میں کوئی فاٹا کا ممبر شامل نہیں تھا۔فاٹا ایک گروپ یا پارٹی کا نہیں ہے اکثریت کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ہم پاکستان کی حکومت سے کوئی ایسی چیزیں نہیں مانگیں گے جو جمہوریت کے منافی ہو۔ہماری آواز سنی جاتی ہے نہ ہم خود اپنے فیصلے کرتے ہیں۔
ہماری گورننس میں ہمارا کوئی حصہ نہیں باہر کے لوگ ہم پر حکومت کرتے ہیں۔جمہوری اصول ہمارے لئے کیوں نہیں ہم سے فیصلہ میں رائے کیوں نہیں لیتے۔اگر فاٹا کو صوبہ بنانا ہے یا صوبے میں شامل کرنا ہے ہم سے فیصلہ لیا جائے۔وہاں ترقیاتی کاموں کی نگرانی وہاں کے نمائندے کریں۔اصلاحات سے کوئی مسئلہ نہیں باہر کے فیصلوں سے مسائل پیدا ہوئے۔فاٹا کو الگ صوبہ بنانا ہے,اس بات کا فیصلہ فاٹاکے لوگ خود کرینگے ۔
پارلیمینٹیرین کی کمیٹی بنائی جائے ,جو گورنر سمیت سب کا محاسبہ کرسکے۔باہر کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہی آج ہم بھگت رہے ہیں۔سال سے زائد گزرا ہے فاٹا میں افغان روس جنگ میں جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہیں۔روس افغان جنگ کیخلاف سب آگے آئے لاکھوں افراد کو مسلح کیا گیا۔جنگ سے متاثرہ فاٹا کی ابھی اصلاحات ہورہی ہیں جنکے لئے اصلاحات ہورہی ہے ان سے نہیں پوچھا جا رہا ہے۔
انکی تصویر کشی جو دنیا کے سامنے کی جارہی ہے اسکی مذمت کرتے ہیں۔پشتون کبھی بھی دہشت گرد نہیں رہا وہ وطن کے لئے لڑتا اور مرتا ہے۔فاٹا کے لوگ محب وطن تھے ہیں اور رہیں گے۔فاٹا کے لوگوں سے اصلاحات کے حوالے سے کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔جب انکو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں تو انکی رائے ضروری ہے۔
فاٹا کی آبادی بلوچستان سے زیادہ ہے اور وہاں کے لوگ پڑھے لکھے ہیں۔فاٹا کو ہم ایک مفتوحہ علاقہ سمجھ رہے ہیں۔فاٹا کے مثبت اور منفی اثرات ملحقہ پشتون علاقوں اور افغانستان پر پڑتے ہیں۔عجلت میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے جسکے اثرات اس خطے پر پڑیں۔ہم چاہتے ہیں ہم اس کار خیر میں انکی رائے کو ضرور شامل کریں۔فاٹا کے سینٹرز اور عوامی نمائندے وہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی مانیٹرنگ کریں۔
یہاں کے بیورکریٹ کو وہاں کے حدوداربعہ کا نہیں پتہ نہ وہاں رہنے والوں سے وہ واقف ہیں۔وہاں جرنیل ججز اور پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں۔ محمود اچکزئی نے کہاکہ ہم نے اس خطے کو ٹریننگ سینٹر میں بدلا۔وہاں لوگوں کے گھر بھی گرے اوربچے بھی مارے گئے۔وہاں تیس سے زائد مساجد شہید کی گئی۔وہاں کسی نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا نہ مردہ باد کا نعرہ لگایا۔فاٹا میں خاموشی کو بے غیرتی سمجھا جاتا ہے۔
اس خاموشی کو مثبت سمجھا جائے۔وہاں گھر کی تعمیر کے لئے چار لاکھ دیا جا رہا ہے۔لوگوں نے جمع پونجی خرچ کرکے مکان بنائے۔ سینٹر ہلال الر حمن خان نے کہاکہ ایف سی کو رواج ایکٹ میں تبدیل کیا جائے گا۔لوگ پہلے تنگ ہیں انکی مشکلات مزید بڑھائی جارہی ہیں۔ ہمیں یقین دھانی کروائی گئی کہ ہماری رائے شامل کی جائے گی۔کمیٹی اراکین سے ملنے کا کہا مگر ملے نہیں۔
محمود اچکزئی نے کہاکہ کون سی قومی اسمبلی ہے یہ جس علاقہ میں اصلاحات کی جارہی ہیں انکو شامل نہیں کیا گیا۔قومی اسمبلی تب ہوتی جب وہاں کے نمائندوں کی شمولیت ہوتی۔سب نے کہا ہم گئے ہم نے فیصلہ کیا پورے فاٹا کا دورہ انہوں نے آٹھ دن میں کیا۔ہمیں بھی ایسا کمپیوٹر دے دیں پینتس ہزار مربع میٹر کا دورہ جسکے ذریعے آٹھ دن میں ہوا۔موجودہ آئین کے چار آرٹیکل ان پر لاگو ہیں اور ہم پر ایک سو اسی لاگو ہیں۔
فاٹا کی تاریخ میں کسی راہ چلتی ماں بیٹی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی یہاں آئے روز ہوتی ہے۔وہاں کبھی قتل بغیر نوٹس نہیں ہوا نہ ہی وہاں شراب اور جوئے کا اڈہ ہے۔پاکستانی فوج کوآپریشن کے دوران فاٹا کے لوگوں کا تعاون حاصل ہے۔وہ اس قسم کی سوچ نہیں رکھتے انکے بہت سے لوگ فوج میں ہیں۔ہم ایک نئے علاقے کو ساتھ شامل کر رہے ہیں۔