تقریباً دو ماہ کے طویل قیام کے بعد جب مہمان خانقاہ سے رخصت ہونے لگا تو حسب عادت حضرت جنید بغدادی ؒ اسے رخصت کرنے کے لیے بنفس نفیس اس کے کمرے میں تشریف لائے اور ہر چند کہ مہمان بار بار منع کر رہا تھا سامان باندھنے اور اس کی سواری کے لئے چارہ پانی کا بندوبست کرنے میں اس کی مدد فرمانے لگے۔
مہمان حیران تھا کہ آخر یہ لوگ کس مزاج اور کس طبیعت کے لوگ ہیں ۔۔۔۔۔۔ سیدالطائفہ کہے جاتے ہیں۔
شرق و غرب میں ان کی شہرت ہے۔ لاکھوں انسان ان کے مرید و معتقد ہیں کہ چشم و ابرو کے معمولی سے اشارے پر اپنی قیمتی سے قیمتی متاع لٹا دیں اور یہ خاکساری و انکساری کے ایسے پیکر کہ میرے جیسے معمولی انسان کی حاجب براری و خدمت گزاری کو باعث فخر اور فرض اولین تصور کر رہے ہیں۔ سامان تیار ہو گیا اور سورای بھی۔ اب وقت رخصت آن پہنچا۔ مصافحے اور معانقے کی باری آئی تو حضرت جنید بغدادی ؒ نے مہمان سے دریافت فرمایا کہ “آپ اتنے دن یہاں رہے لیکن آپ نے کچھ نہیں بتلایا کہ آپ کس غرض سے یہاں آئے تھے اور اب کیوں واپس جا رہے ہیں؟ حضرت جنید بغدادی ؒ کا یہ سوال سن کر مہمان بہت سٹپٹایا اگر حقیقت بتلا دے تو اندیشہ تھا کہ جنید بغدادی ؒ ملول و دل گیر ہوں گے اور نہ بتلائے تو کتمان حق ہو گا جو اہل حق کے نزدیک روا نہیں ہے، گہری سوچ میں پڑ گیا اس کی دلی کیفیت کو بھانپ کر حضرت جنید بغدادی ؒ نے فرمایا: میرے عزیز! گھبرانے یا شرمانے کی ضرورت نہیں جو کچھ تمہیں کہنا ہو صاف صاف کہو۔
ہم لوگ جس طبقے سے علق رکھتے ہیں کسی ایسی ویسی بات کا برا نہیں مناتے۔ حضرت جنید بغدادی ؒ کے ہمت دلانے سے رخصت ہونے والے مہمان میں کسی قدر جرات پیدا ہوئی اور شرماتے شرماتے وہ کہنے لگا حضرت! گستاخی معاف، میں دور دراز علاقے کا رہنے والا ہوں دراصل میں یہ سن کر آیا تھا کہ آپ بڑے صاحب کرامت و ولایت بزرگ ہیں۔ مگر میں افسوس کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اتنے دن میں آپ کے پاس رہا لیکن میں نے تو کوئی کرامت دیکھی نہ ولایت۔ اس لئے نا امید ہو کر اب واپس جا رہا ہوں۔
جنید بغدادی ؒ مسکرائے اور فرمایا۔ میرے دوست! ایک بات بتلاؤ، تم اتنے دن میرے ساتھ رہے۔ اتنے دنوں میں تم نے میرا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اکرم ﷺ کی سنت کے خلاف دیکھا ہے؟ مہمان نے کمال سادگی سے جواب دیا۔ حضرت! یہ تو آپ درست فرما رہے ہیں۔ ایسی کوئی چیز تو میں نے نہیں دیکھی ہے
حضرت جنید بغدادی ؒ نے فرمایا۔ بھائی! یہی میری ولایت اور یہی میری کرامت ہے۔ میرے طریق کی روح،منتہائے مقصود اور سب کچھ یہی ہے کہ بندے کا کئی قدم مولا کے حکم کے خلاف نہ اٹھےاور زندگی کا ہر لمحہ اس کی یاد میں بسر ہو جائے ہوا میں اڑنا اور پانی پر دوڑنا کرامت نہیں ہے کہ مکھی بھی ہوا میں اڑتی ہے اور ممچھلی بھی پانی میں دوڑتی پھرتی ہے۔
اصل کرامت اور اصل ولایت تو یہی ہے کہ کوئی عمل سرکار دو عالم ﷺ کی سنت کے خلاف نہ ہو سنت ہی جادئہ مستعد ہے۔ سنت ہی راہ نجات اور اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والا قریب ترین راستہ۔ یاد رکھو پیغمبر کی ذات بابرکات منارئہ نور ہے۔ اسی کی روشنی میں سفر حیات طے کرنے کے بعد تم منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہو، باقی سب ہیچ اور بے حقیقت ہے۔