کراچی(آئی این پی)سندھ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین سردار ممتاز علی خان بھٹو کی زیر صدارت ہفتہ کو سندھ نیشنل فرنٹ حیدرآباد کے ورکرس کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے ممتاز علی بھٹو نے کہا کہ زرداری کا دماغ خراب ہو چکا ہے اور وہ اب اپنے قد کاٹھ سے زیادہ بھڑکیں مارنے لگا ہے اور غیرقانونی طور پر پولیس اور رینجرس کی بھاری نفری کے پہرے میں چلنے والا زرداری اب بھڑکیں مار رہا ہے کہ اس کو بلاول کی ضرورت نہیں ہے اور اس نے شہید بینظیر کو بھی منع کی تھی کہ وہ گاڑی سے باہر نہ نکلے اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر وہ گڑھی خدا بخش بھٹو جاکر بھٹو کے نعرے لگا کر فوٹو کیوں کھچواتا ہے اور اپنے بیٹے کو باپ کے نام میں نہیں بلکہ بھٹو کے نام میں کیوں چھپایا ہوا ہے؟ ممتاز علی بھٹو نے مزید کہا کہ زرداری اگر اتنا بڑا لیڈر ہے تو اپنے دادا کے نام میں کیوں نہیں چلتا جس کی قبر اس نے کئی برسوں بعد اب جاکر ڈھونڈ لی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ زرداری نے نہ تو بھٹوؤں کے نام میں اور نہ ہی اپنے دادا بالو کے نام میں حکمرانی کی ہے مگر اس نے برائے راست کرپشن اور لوٹ مار کا نظام نافذ کرکے اقتدار کے مزے لوٹے ہیں جس کی موجودہ مفاہمتی دور ہونے کی وجہ سے اس کا حساب لینے والا کوئی نہیں ہے مگر افسوس یہ ہے کہ سندھ کے نمک خور وڈیرے صرف لوٹ مار میں حصہ دار بننے کیلئے زرداری کو تحفظ دے رہے ہیں مگر جرم تو سندھ کی عوام کا ہے جو پگڑیاں بگل میں لیکر ہاتھ پھیرے ان کے پیچھے ڈوڑتے پھرتے ہیں، کیا پاکستان کے دیگر صوبوں میں عوام نہیں ہے اور وہاں بھوک و افلاس نہیں ہے تو پھر وہاں کی عوام نے کیوں زیپلوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے اور وہ اب صرف سندھ پر ہی نازل ہیں جس کا نتیجہ سندھی عوام بھگت رہی ہے۔ یاد رہے کہ زرداری نے شہید بینظیر سے شادی سے قبل اپنے علاقے میں ضیاء دور میں لوکل باڈیز کی الیکشن لڑی تھی اور اپنے دادا بالو کے نام پر ووٹ مانگے تھے تو صرف 15 سووٹ لیکر بری طرح ہار گیا تھا۔ ممتاز علی بھٹو نے مزید کہا کہ زرداری نے اپنے بیٹے بلاول کو بھی نہیں بخشا اور اس کو ملک سے بھگا کر سیاسی میدان میں اس کو خراب کردیا کیونکہ کئی دنوں سے بلاول یہ اعلان کر رہا تھا کہ 27 دسمبر 2016ء4 کو لانگ مارچ کا اعلان کرکے دمادم مست قلندر کروں گا مگر وہ تو نہیں ہوا اور یہ ضرور ہوا کہ زرداری نے اپنے بیٹے کو میدان سے ہی بھگا دیا جو عمل بلاول کو اپنی سیاسی زندگی کی شروعات میں ہی بڑا دھچکا لگا ہے ایسی صورتحال میں جو اپنے بیٹے کا ہی خیرخواہ نہیں ہے تو پھر وہ کسی دوسرے کا کیسے ہو سکتا ہے، لہٰذا سندھی جاگو سندھ بچاؤ۔