کوئٹہ (آئی این پی )امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ بیرونی قوتیں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اور ایٹمی پروگرام کسی صورت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔سی پیک میں بلوچستان کا اہم کردار ہے‘ یہاں امن بحال کرنے کیلئے حکومت کو بلوچستان کے اندرونی مسائل حل کرنا ہوں گے۔اگر بلوچستان کی گیس سے پورے ملک کا چولہا جلتا ہے تو یہ بنیادی سہولت بلوچ عوام کو بھی ملنی چاہیے۔ ہم نے ہمیشہ بلوچستان کے مسائل حل کرنے کی بات کی ہے۔ آج 21دسمبر کو کوئٹہ میں ہونے والی دفاع اسلام کانفرنس میں قومی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے علاوہ بلوچستان کی جماعتیں بھی شامل ہوں گی۔ تھرپارکر سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی سینکڑوں واٹر پروجیکٹ مکمل کئے۔وہ مقامی ہوٹل میں دفاع اسلام کانفرنس کی تیاریوں و انتظامات کے حوالہ سے پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اس موقع پرجماعۃالدعوۃ کے مرکزی رہنما مولانا سیف اللہ خالد، نظریہ پاکستان رابطہ کونسل کے چیئرمین قاری یعقوب شیخ، جماعۃالدعوۃ کوئٹہ کے مسؤل محمد اشفاق اور تحریک آزادی جموں کشمیر کے سیکرٹری جنرل حافظ خالد ولید بھی موجود تھے۔ جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت پاکستان خصوصا بلوچستان تخریب کاری اور دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کے حوالہ سے آج کی دفاع اسلام کانفرنس میں تفصیل سے گفتگو ہو گی۔ ایک مدت سے بلوچستان کے اندرونی مسائل سے حکومت کی چشم پوشی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رد عمل پر بھی بات کریں گے۔ اسی طرح امت مسلمہ کے مسائل پر بھی بات ہو گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔کشمیر میں انڈیا خون بہا رہا ہے۔شام ،فلسطین،برما اور ہر جگہ مسلمانوں پر ظلم کیا جا رہا ہے اس پر بھی بھر پور آواز اٹھائیں گے۔انہوں نے کہاکہ آج تک پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ پر انحصار کیا۔سی پیک کا منصوبہ، پاکستان کا امن اور ایٹمی پروگرام بھارت اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کو کسی طور برداشت نہیں ہے۔ امریکہ انڈیا کو شہہ دے رہا ہے۔ دشمن کو ہمارا پاکستان کے مسائل پر بولنا گورارا نہیں ہے ۔اسی لیے دشمن ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے لیکن ہم کسی کے پراپیگنڈے سے متاثر اور دباؤ کا شکار ہونے والے نہیں ہیں۔افغان مہاجرین کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے حکومت نے ایک سال کے لیے ریلیف دیا مگر اس کو مکمل حل کرنا ہو گا ۔
حافظ محمد سعید نے کہاکہ دفاع اسلام کانفرنس میں دینی وسیاسی قیادت اور بلوچستان کی جماعتیں بھی شامل ہوں گی ۔ہم ہر کسی کو اپنے ساتھ لیکر چلتے ہیں۔ پاکستان میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنا ہمارا مشن ہے۔ہم کہتے ہیں کہ ہر صوبے کا مسئلہ حل ہونا چاہیے۔اگر بلوچستان سے گیس پورے پاکستان میں جاتی ہے تو اس کو بھی یہ حق ملنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ میں ہمارے خلاف بولنے والے اغیار کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔جب ہم کشمیر کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ انڈیا کوراضی کرنے کے لیے ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔یہ بیچارے بیرونی طاقتوں سے خوف کھاتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پروگرام کی سکیورٹی حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہ اس کے لیے انتظامات کر رہے ہیں۔بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لیے ہمیں متحد ہو کرآوازاٹھانی ہو گی۔ہم بلوچستان میں800 کنویں بنا چکے ہیں۔ جب زلزلہ آیا تو ہم نے بلوچستان میں کئی گاؤں از سر نو تعمیر کئے اور بھر پور ریلیف کا کام کیا۔انہوں نے کہاکہ جب امریکہ نے انڈیا کے کہنے پر میرے سر کی قیمت مقرر کی تو میں نے اسلام آباد میں کہا تھا کہ ہم چھپے ہوئے لوگ نہیں ہیں میں نے اپنے پور ے مہینے کا شیڈول بتایااور کہا کہ میں معلومات دیتا ہوں 10 ملین ڈالر مجھے دیں میں بلوچستان میں خرچ کروں گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں مذاکرات کو مسائل کے حل کی بنیاد سمجھتا ہوں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں۔اس سلسلہ میں میرے اور میری جماعت کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ مذاکرات آپ کس سے کریں گے ۔انڈیا مذاکرات کی بات سننے کو تیار نہیں۔مذاکرات حق اور انصاف کے ساتھ ہونے چاہیں۔کشمیر اور افغانستان پر مذاکرات ہونے چاہیں۔کشمیر میں انڈیا گولی چلانا بند کرے پھر مذاکرات کرنے کا فائدہ بھی ہو گا۔کشمیریوں نے اپنی آزای کی تحریک کو اس سظح پر کھڑا کر دیا ہے کہ انڈیا بے بس ہو چکا ہے اور اس کا یہ پراپیگنڈہ کے مجاہدین باہر سے آتے ہیں دم توڑ گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ کشمیر میں جاری مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت کنٹرول لائن پر فائرنگ کرتا ہے اور پھر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے۔
انڈیا کشمیر میں کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہا ہے ۔انڈیا کنٹرول لائن پر فائر کرے تو اس کا جواب دینا پاک فوج کا فرض ہے۔فوج سیاست نہیں دفاع کرتی ہے۔ انڈیا کی تحریک خالصتا کشمیریوں کی ہے۔انڈیا کو کشمیریوں کو آزادی دینی پڑے گی ۔کشمیری اپنے امتحان میں سرخرو ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم نے تھرپارکر، چترال، بلوچستان میں ہزاروں کنویں بنائے اور وہاں پر خدمت خلق کا کام کیا۔اس وقت بھی کئی رفاہی پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے ۔ہم بیرونی فنڈ سے نہیں پاکستان کے لوگوں کے تعاون سے امدادی کام کر رہے ہیں۔بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ملکر افغان مہاجرین کے مسائل حل کیے جائیں ۔