لاہور(آئی این پی) صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ کوکین کا پہلے کسی نے نام بھی نہیں سنامگر آج ’’ بڑے بڑے ‘‘لوگوں کو یہ نشہ لگا ہوا ہے‘ کوکین پینے والوں کو اچھی سہولتیں میسر ہیں لیکن عام پینے والا سال دو سال سے زندہ نہیں رہ سکتا ہے اس نشے سے ذہنی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے یہ برائیاں ہماری قومی سطح پر زندگیوں کو خراب کر رہی ہیں‘کوکین اور ہیروئن قومی زندگی کو برباد کر رہے ہیں اس معاملے کو تفصیل میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیا خیبر پختوانخواہ میں شراب کے لائسنز نہیں دئیے جاتے ؟۔ وہ جمعہ کے روزپنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے نکتہ اعتراض کا جواب دے رہے تھے صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ ڈاکٹر وسیم اختر ایم بی بی ایس اور ہمارے پڑھے لکھے دوست ہیں جس طرح مولوی ایک سطحی بحث کو لیتا ہے اس معاملے کو اس طرح نہیں لینا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے شراب ، ریڈ لائٹ ایریاز تھے بلکہ افیون کے ٹھیکے ہوتے تھے ۔ جدید معاشرے میں میں اس پر بڑی بحث ہوئی ہے اور صورتحال واضح نہیں اس لئے ابہام نہیں ڈالنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ریڈلائٹ ایریاز تھے ،کچھ لوگوں کے ضابطے پر پابندی کرنے کا تصور ہے لیکن آج گلی محلوں میں برائیاں پھیلی ہوئی ہیں اور ہم اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں لیکن ہمیں کسی مرحلے پر بات کرنا ہو گی ۔ اس کے علاوہ باقی نشے بھی ہیں جن میں ہیروئن ، چرس اور کوکین بھی ہے اور کوکین کا پہلے کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا ۔ بڑے بڑے لوگوں کو یہ نشہ لگا ہوا ہے ۔ کچھ لوگ زندگی بھر شراب پیتے ہیں لیکن زندہ رہتے ہیں ۔ ہیروئن پینے والا معمول کے مطابق زندگی نہیں گزارتا ۔ کوکین پینے والوں کو اچھی سہولتیں میسر ہیں لیکن عام پینے والا سال دو سال سے زندہ نہیں رہ سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس نشے سے ذہنی صلاحیت ماؤف ہو جاتی ہے یہ برائیاں ہماری قومی سطح پر زندگیوں کو خراب کر رہی ہیں۔ کوکین اور ہیروئن قومی زندگی کو برباد کر رہے ہیں ۔ اس معاملے کو تفصیل میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کیا خیبر پختوانخواہ میں لائسنز نہیں دئیے جاتے ۔ ملک کے ایک حصے کو زیر بحث لانا مناسب نہیں ۔