اسلام آباد(آئی این پی )پانامہ لیکس کی تحقیقات کے معاملے پر متحدہ اپوزیشن کے پتے بکھرنے لگے ،12رکنی ٹی اوآرز پارلیمانی کمیٹی بن گئی، ایم کیو ایم ادھر ہے نہ ادھر ، اے این پی نے بھی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ، ایم کیو ایم کو کمیٹی میں شامل کرنے سے متعلق فیصلے کے لئے حزب اختلاف (آج) جمعہ کو سر جوڑ کر بیٹھے گی ۔تفصیلات کے مطابق پانامہ لیکس کا ہنگامہ اور تحقیقات اپوزیشن کے اختلافات کی نظر ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے ۔ حکومت مخالف تحریک، قرض معافی اور کک بیکس کے معاملات پر متحدہ اپوزیشن میں دراڑیں پڑ گئی ہیں ۔عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا۔ سربراہ اے این پی اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ تحقیقات کو صرف پانامہ لیکس تک محدود نہ کیا جائے ۔صرف وزیراعظم اور ان کے خاندان کو کٹہرے میں کھڑا کر دینا مسئلے کا حل نہیں ۔ وزیراعظم مجرم نہیں ملزم ہیں ۔ اے این پی وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ نہیں کرے گی۔ انکوائری کمیشن پانامہ لیکس کے ساتھ قرض معافی اور خیبر لیکس کی بھی تحقیقات کرے۔ دوسرے طرف جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں 12رکنی ٹی اوآرز کمیٹی کے قیام کی تحریک منطور کر لی گئی ۔ ایم کیو ایم کو اپوزیشن میں شامل کئے جانے پر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی خوب برہم دکھائی دیئے۔ اجلاس سے خطاب پر ان کا کہنا تھا کہ اگر ایم کیو ایم اپوزیشن ہے تو اسحاق ڈار سے کیوں رابطے کر رہی ہے حزب اختلاف سے رابطے کرے ۔اپوزیشن کے سخت رویے پر متحدہ قومی موومنٹ نہ ادھر رہی نہ ادھر جس پر متحدہ کے رکن قومی اسمبلی آصف حسنین نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ اگر ایوان چاہتا ہے ایم کیو ایم اسمبلی سے بھی باہر چلی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں ایسا بھی کر لیتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ ایم کیو ایم اپوزیشن کی نمائندگی پر حکومت کو ووٹ نہ دے دے ۔متحدہ اپوزیشن کے اختلاف کے باعث خدشہ ہے کہ پانامہ لیکس کا معاملہ بیچ میں ہی لٹک جائے گا ۔ واضح رہے کہ ایم کیو ایم کی درخواست پر ٹی اوآرز کمیٹی میں شمولیت پر اپوزیشن جماعتیں آج جمعہ کو اجلاس میں غور کریں گی۔