کراچی (نیوزڈیسک) پیپلز امن کمیٹی اور گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ سے تفتیش مکمل کر لی گئی ہے۔ جی آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ 2013 میں ایران کے راستے دبئی روانہ ہوا۔ عزیر بلوچ نے 198 افراد کے قتل کا اعتراف کر لیا۔ گینگ وار کے سرغنہ نے 159افراد کو لسانی بنیادوں پر قتل کیا۔ عزیر بلوچ کو 2006 میں بھی گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کے بعد عزیر بلوچ کا 7 مقدمات میں چلان ہوا۔ عزیر بلوچ نے ارشد پپو، یاسر عرفات اور شیرا پٹھان کے قتل کا بھی اعتراف کیا۔ عزیر بلوچ نے شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں 11 افراد کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔عزیر بلوچ نے 2005 میں 2 رینجرز اہلکاروں کے قتل کا بھی اعتراف کیا ہے۔ ملا نثار، استاد تاجو، سہیل ڈاڈا، شاہد بکک، سلیم ،ریحان، احسان اور الیاس اور عارف اسلحہ کی ڈیلنگ کرتے تھے۔ گینگ کے 14 کمانڈر بیرون ملک فرار ہیں۔ گینگ کے کارندے ساؤتھ افریقہ، دبئی، اومان اور ایران میں موجود ہیں۔ ایس پی اقبال بھٹی کو ٹی پی او لیاری تعینات کرایا اور 7 ایس ایچ اوز سمیت 8 پولیس اہلکار لیاری میں میرے لیے کام کرتے تھے۔ سابق ایڈمنسٹر لیاری محمد رئیس 2 لاکھ روپے ماہوار فراہم کرتا تھا۔ سابق چیرمین ایف سی ایس سعید خان 20 لاکھ روپے بھتہ دیتا تھا۔عزیر بلوچ نے بیوی کے نام پر متعدد اکاؤنٹس کھول رکھے ہیں۔ دبئی جانے کے بعد بھی بھتے کا کالا دھندہ چلتا رہا۔ عزیر بلوچ نے جعلی برتھ سرٹیفکیٹ ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا رکھا تھا۔ حاجی نثار نامی شخص کے ذریعے ایرانی انٹلیجنس ایجنسی سے ملاقات ہوئی۔ عزیر بلوچ نے ایرانی انٹلیجنس ایجنسی کو حساس معلومات فراہم کیں۔ عزیر بلوچ نے بیوی کے نام پر دس اکانٹس کھول رکھے تھے جس میں کروڑوں روپے موجود ہیں۔جے آئی ٹی نے سفارش کی عذیر بلوچ کے مقدمات کی نئے سرے سے تفتیش کی جائے اور فوجی عدالت میں چلائے جائیں جبکہ گرفتار اہم ملزمان کے معاونت کاروں کو بھی پکڑا جائے۔ عزیر کے مقدمات نیب ، ایف آئی اے کو بھی بھیجے جائیں۔