جمعرات‬‮ ، 16 جنوری‬‮ 2025 

سوشل میڈیا انسانی سمگلروں کا بڑا ہتھیار ، کمسن بچوں کو بآسانی پھانسنے لگے

datetime 23  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(نیوزڈیسک) نکول جب صرف سترہ برس کی تھی،تو اس کی ماں کو وائیٹ کالر کرائم پر جیل ہو گئی ۔ اس دوران اس کی فیس بک پر ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی ، جس نے اس کی کہانی سن کر اس کی دیکھ بھال کرنے کی پیش کش کی ۔ مگر اس لالچی بھیڑیے نے دیکھ بھال کرنے کے بجائے اس کو مختلف مردوں کو فروخت کیا اور حوا کی بیٹی سے عصمت فروشی کرواتا رہا ۔ آج کے دور میں خودکودنیا کی سپر پاور کہنے والے ملک امریکا میں ٹیکساس سے لے کر واشنگٹن ڈی سی تک اس بے بس لاچار اور مجبور لڑکی کوبیچا جاتا رہا ، یہاں تک کہ جب وہ بیس برس کی ہوئی تو ایک ایسے ہی اجتماعی زیادتی کے واقعہ کے دوران وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں،این جی اوز اور دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ نکول جیسی لاتعداد مجبور دنیا بھر میں انسانیت کے دشمنوں کے چنگل میں پھنسی ہیں ، اور پھنستی رہتی ہیں ، جس کا بڑا سبب سوشل میڈیا ہے ، جس کو استعمال کر کے انسانی سمگلنگ کا کام پوری دنیا میں اپنے عروج پر ہے ۔ ایک دور تھا جب نو عمر اور نا سمجھ بچیوں کو گلیوں اور بازاروں سے پکڑ لیا جاتا تھا ، لیکن اب ترقی یافتہ اور مبینہ طور پر مہذب ممالک میں ایسے ظالم افراد کے لئے ان کے اسلحہ خانہ میں سوشل میڈیا کی شکل میں انسٹاگرام ، فیس بک ، کک ، ٹیگڈ ، ٹویٹر ، وٹس ایپ اور سنیپ چیٹ جیسے ہتھیار موجود ہیں ، جن کو استعمال کر کے وہ آسانی کے ساتھ اپنے مذموم مقاصد حاصل کر رہے ہیں ۔
عالمی میڈیا کے مطابق ایسے لوگ جب ایک لڑکی کا شکار کر لیتے ہیں،تو ان کے ذریعے چند دنوں میں ہزاروں ڈالر کما لیتے ہیں،اور پھر یہ رقم لاکھوں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی ان کا توڑ کر سکے ہیں ، نہ ہی ان کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ یورپی یونین پولیس ایجنسی ، یوروپول کے مطابق آن لائن ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف انسانوں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے ، بلکہ یہ سمگلر ریموٹ سرویلنس کے ذریعے اپنے شکار پر نظر بھی رکھتے ہیں ، اور اس کے بھاگنے کے سارے راستے بند کر دیتے ہیں ۔ اسی طرح برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے انسانی سمگلنگ ایک ابھرتا اور تیزی سے تقویت پاتا رحجان ہے ، لیکن ان کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے ، جس سے پتہ چل سکے کہ یہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق پوری دنیا میں 2 کروڑ 10 لاکھ افراد انسانی سمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں ، اور یہ سالانہ 150 ارب ڈالر کی صنعت بن چکی ہے ، اوران 2 کروڑ 10 لاکھ میں سے 45 لاکھ کو جبری عصمت فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ جن افراد کو ان بھیڑیوں کے چنگل سے بچایا جا سکا ہے ، ان میں سے 90 فیصدکا کہنا ہے کہ ان کو آن لائن بیچا گیا ۔ نو عمر بچوں کو ورغلانا ان کے لئے آسان ہوتا ہے ، اورخاص طور پر محبت ، تحفظ روزگار اور جیون ساتھی کی تلاش میں نوجوان لڑکیاں بہت جلد ان کے جھانسے میں آ جاتی ہیں ۔ انڈونیشیا میں ایک این جی او کا کہنا ہے کہ اس ملک میں کمسن بچے اور بچیاں فیس بک ، ٹویٹر کا استعمال کرتی ہیں ۔ انسانی سمگلر انہی کے ذریعے ان کے قریب آتے ہیں ، بڑی مہارت سے ان کی کمزوری کا اندازہ کرتے ہیں ، ان کی خواہش کے مطابق روزگارپر لگوانے کی پیش کش کرکے پھانس لیتے ہیں ۔ انڈونیشیا میں پہلی بار 2010 یاھو مسنجر اور ایم آئی آر سی کے ذریعے بچوں کو چالیس سے ساٹھ ڈالر میں بیچا گیا ۔ ایک امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ اس وقت کروشیا ، نائیجیریا،روس،بلغاریہ،برازیل،جاپان، منگولیا اور جنوبی کوریا میں یہ دھندا عروج پر ہے ، جب کہ ویت نام کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ نوجوان خواتین یہ سمجھ بیٹھتی ہیں کہ کوئی ان سے زندگی بھر کا ساتھ قائم کرنا چاہتا ہے ، لیکن جب ملاقات ہوتی ہے تو وہ انسان کے روپ میںبھیڑیا نکلتا ہے ۔ اسی طرح چین میں مرد عورتوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ ان سے بہت محبت کرتے ہیں ، لیکن جب ملتے ہیں تو حوا کی بیٹیوں کومکروہ دھندے میں پھینک دیتے ہیں ۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ اربوں کی تعداد میں یوزر ہونے کی وجہ سے ایک ایک کا ڈیٹا چیک کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں،اس لئے انسانی سمگلنگ پرکنٹرول کرنے کے لئے یہی بہتر ہے کہ اپنے بچوں کو ان سے بچنے کی تربیت دی جائے ، اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے ۔



کالم



20 جنوری کے بعد


کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…