اسلام آباد ((نیوزڈیسک) بظاہر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں آئینی اصلاحات کے ذریعے داخلی خودمختاری دینے، بدنامِ زمانہ فرنٹیر کرائمز رولز کے خاتمے پر تمام قبائل متفق ہیں تاہم اس کی کیا شکل ہو اس پر ان کے مابین مکمل اتفاق رائے نظر نہیں آتا، اس عدم اتفاق کی بنیاد پر 22 ویں آئینی ترمیمی بل تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت کے باوجود پارلیمنٹ سے منظور ہونا محلِ نظر ہے۔ پیر کے روز اسلام آباد میں جماعتِ اسلامی کے زیر اہتمام فاٹا اصلاحات کے حوالے سے جو کل جماعتی کانفرنس منعقد کی گئی اس میں جہاں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے اس بات پر اصولی اتفاق کر لیا کہ قبائلی رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفرید ی کی جانب سے قومی اسمبلی میں داخل کیا جانے والا بل اتفاق رائے سے متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹی کو بھجوایا جائے اور اس بل پر سینیٹ کی بھی پیشگی رائے لینی چاہیے .روزنامہ جنگ کے صحافی احمدحسن کی رپورٹ کے مطابق وہاں جے یو آئی (ف) کے رہنما سینیٹر عطاالرحمان نے اختلافی بیا ن دیکر اس اتفاقِ رائے کو تہہ و بالا کر دیا۔ اپنی تقریر میں عطاء الرحمان نے کہا کہ ان کی جماعت کے زیراہتمام 2012 میں ایک قومی قبائلی جرگہ پشاور میں منعقد کیا گیا تھا جس نے ایک اعلیٰ اختیاراتی ذیلی جرگہ تشکیل دیا جس نے تمام قبائلی ایجنسیوں کا دورہ کر کے اور عوام کی رائے لیکر یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ قبائلی عوام موجودہ صورتِ حال میں صوبے میں مدغم ہونے یا الگ صوبے کا انتظام چلانے کے اہل نہیں ہیں ا سلئے بجائے ان دو آپشنز کے موجودہ صورتِحال کو برقرار رکھا تو جائے لیکن ایف سی آر میں اس طرح تبدیلیاں لائے جائیں جن کے ذریعے قبائلی عوام کو نہ صرف قومی دھارے میں شامل کرنے میں مدد مل سکے بلکہ وہ ان علاقوں کی ترقی کے ثمرات سے بھی اسی طرح مستفید ہوں جس طرح ملک کے دوسرے حصے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ جے یو آئی کے لیڈر نے کہا ان کی جماعت اسی جرگے کی رائے کی پابند ہے اور مجوزہ بل کی منظوری کے عمل میں اس جرگے کی رائے بھی شامل ہونا ضروری ہے۔ دریں اثناء فاٹا کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے ق لیگ کے اجمل خان وزیر نے کہا عجیب بات ہے کہ چاہے جے یو آئی ہو یا جماعت اسلامی دونوں اس دس قومی جماعتی کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے اس کمیٹی کے سفارش کردہ گیارہ نکاتی اصلاحاتی پیکیج پر قائم رہنے کی بجائے اپنے طور پر اپنے حامی قبائلی زعماء پر مشتمل اجتماعات منعقد کر رہے ہیں۔ قبائلی رکن قومی اسمبلی شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں قبائلی علاقوں کو داخلی خودمختاری اور بنیادی انسانی حقوق دینے پر متفق ہیں تو وہ 22ویں ترمیمی بل کی منظوری میں بھی تعاون کریں