اسلام آباد (نیوزڈیسک) مناسب آمدنی رکھنے والا پاکستانی انکم ٹیکس نہ دینے کا جواز پیش کر دیتا ہے حالانکہ بانیان پاکستان قابل تقلید مثال ہیں جو برطانوی ہند میں بھی باقاعدہ ٹیکس ادا کرتے تھے، قائداعظم اور علامہ اقبال ہی نہیں، قائد کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے کتنے پابند تھے۔ اگرچہ پاکستانی حکومتوں نے قائداعظم کے ٹیکس ریکارڈ کو انڈیا سے حاصل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں تاہم بانی پاکستان کے ٹیکس کا ایک سالہ ریکارڈ نیشنل آرکائیو پاکستان میں موجود ہے جو دیکھا جا سکتا ہے۔ مالی سال 1939-40ء کے لئے قائداعظم کا جمع کردہ ٹیکس ریٹرن پوری قوم خصوصاً اہل ثروت کے لئے سبق آموز اور نصیحت آمیز ہے، اس میں ان دولت مندوں کے لئے پیغام ہے جو معاشرے کی تمام مراعات و سہولتیں حاصل کر رہے ہیں جو ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے غریب طبقہ ادا کرتا ہے۔ یہ مراعات یافتہ دولت مند طبقہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہے یا بہت معمولی ادائیگی کرتا ہے۔ بانی پاکستان اپنے دور کے امراء میں شامل تھے لیکن زیادہ ٹیکس دینے والوں میں بھی شامل تھے، ’’سپر ٹیکس دہندگان‘‘ میں ان کا نام تھا جو بہت زیادہ آمدنی والوں کے لئے تھا۔ قائداعظم نے 1939-40ء میں اپنی آمدنی 82335 روپے ظاہر کی اور 4498 روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔ فاطمہ جناح کے پیپرز ان کے ٹیکسوں کی تفصیلات ظاہر کرتے ہیں اگرچہ ان کا ٹیکس ریٹرن دستیاب نہیں ہے تاہم مراسلت کا تبادلہ موجود ہے۔ 1959ء میں اس وقت کے ڈپٹی ٹیکس کلیکٹر کراچی محسن علی خان نے ایک مراسلہ کے ذریعے 1952-53ء کے مالی سال کے لئے ان کے ادا کردہ 5947 روپے کے انکم ٹیکس کے بارے میں استفسار کیا، اس غیرضروری خط پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے مادر ملت نے ڈپٹی ٹیکس کلیکٹر کو جوابی خط میں مشورہ دیا کہ اس قسم کے مراسلے لکھنے سے قبل ریکارڈ چیک کیا کریں، خط کا اختتام اس جملے پر کیا ’’مجھے امید ہے آپ کا دفتر مستقبل میں آپ کے اختیار کی نمائش نہیں کرے گا‘‘ علامہ اقبال کی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ریکارڈ رکھنے میں بہت اچھے تھے، ہر ادائیگی کاباقاعدہ اندراج کرتے تھے، روزنامہ جنگ کے صحافی عمرچیمہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میوزیم میں موجود ان کی 1937ء کی ڈائری میں 1450 روپے کے انکم ٹیکس سمیت دیگر ادائیگیاں بھی درج ہیں۔ قائداعظم کے جانشین رہنمائوں کے ٹیکسوں سے متعلق ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو عوامی آگاہی کے لئے اس ’’قیمتی قومی خزانے‘‘ کی معلومات سامنے لانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق واحد استثنیٰ ہیں جن کی ٹیکس ہسٹری مقابلتاً معلوم ہے جو ان کی باتوں و عمل کی طرح تضادات سے پر ہے۔ جنرل ضیاء نے ایوان تجارت و صنعت کراچی کے سالانہ عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے سخت لہجہ میں کہا تھا کہ ٹیکس ادا نہ کرنا چوری سے بڑا جرم ہے، اسلام میں اگر چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو ٹیکس چور کے ہاتھ کاٹ دینا چاہئیں مگر فوجی ڈکٹیٹر ٹیکس ادائیگی میں خود کتنے اچھے تھے؟ یہ حقیقت ان کی چیمبر میں تقریر کے دو سال بعد سامنے آ گئی، ان کے دور میں تو ٹیکس حکام ان کے ٹیکس ریکارڈ کی اسکروٹنی کی جرات نہیں کر پائے مگر ان کی موت کے بعد جب بینظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو انکوائری شروع ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنی پوری فوجی ملازمت کے دوران کبھی ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا، ان کے اہل خانہ کو ان کی سروس کے آغاز سے موت تک کے گوشوارے جمع کرانے کے لئے کہا گیا، جنرل ضیاء کی بیوہ نے اپنے جواب میں بتایا کہ دو جائیدادوں کا کرایہ ان کی آمدنی ہے، یہ جائیدادیں ضیاء الحق نے1973ء میں ان کے نام منتقل کی تھیں، پراپرٹی کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا تو وہ بدستور جنرل ضیاء کے نام پر تھیں۔ ٹیکس حکام نے اہل خانہ کو ہدایت کی کہ یہ پراپرٹی ضیاء کے ٹیکس ریٹرن میں شامل کریں،۔ یہ عمل سوال اٹھاتا ہے کہ اگر انتقال کے باوجود ضیاء الحق کو ٹیکس ریٹرن جمع کرانے سے استثنیٰ نہیں تو یہ موجودہ قائدین سمیت دیگر رہنمائوں کے لئے لازمی کیوں نہیں ہے؟ ٹیکس ریٹرن 2011ء پر ہماری رپورٹ میں سامنے آیا تھا کہ 70 فیصد قانون ساز گوشوارے جمع نہیں کراتے ہیں، آئندہ برس کی ٹیکس رپورٹ میں بھی کوئی خاص بہتری نظر نہیں آئی کہ 47 فیصد ارکان پارلیمنٹ نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے مگر انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی، دیگر 25 فیصد نے ریٹرن جمع کرانے کا دعویٰ کیا مگر الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی ایف بی آر کی رپورٹ میں اس کی تردید کر دی گئی