کراچی(نیوزڈیسک)سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ ن جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی واضح اکثریت حاصل کرلے گی،عمران خان نے غصہ اور دکھ میں ن لیگ کو ایم کیوا یم سے مشابہ قرار دیا،عمران خان کا تشدد پسندی کے تناظر میں ایم کیو ایم کا حوالہ دینا غلط تھا، مقامی حکومتوں کے انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے تو ہی شفاف انتخابات کی توقع کی جاسکتی ہے، بلدیاتی انتخابات میں فوج کا کردار صرف حساس حلقوں تک محدود ہونا چاہئے۔ان خیالات کا اظہار حسن نثار، امتیاز عالم، بابر ستار، سلیم صافی اور مظہر عباس نے ایک نجی ٹی وی چینل ے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کیا۔ پہلے سوال عمران خان کا یہ بیان کتنا درست ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی ایم کیوا یم ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ عمران خان کا مسلم لیگ ن کو پنجاب کی ایم کیوا یم قرار دینا ان کا غصہ ہے، مسلم لیگ ن سانحہ ماڈل ٹائون سے حالیہ واقعہ تک انصاف فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ بابر ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم میں منظم تشدد نظر آتا تھا جس کا مسلم لیگ ن میں نشان نہیں ملتا ہے، پنجاب میں سیاسی حریفوں کیخلاف تشدد کا استعمال ہوتا ہے جس پر ایکشن لینا چاہئے۔ امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ لاہور میں پی ٹی آئی کارکنوں کی ہلاکت سے جمہوریت پسندوں کو دکھ ہوا ، پنجاب کی سیاست میں تشدد کا رجحان بڑھ رہا ہے، مسلم لیگ ن اور پنجاب حکومت کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے، بلدیاتی انتخابات میں عموماً تشدد دیکھنے میں آتا ہے، خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں بھی کافی لوگ مارے گئے۔حسن نثار نے کہا کہ ن لیگ ماڈل ٹائون اور دھرنے کے دوران وحشت اور بربریت کی حد تک گئی ہے، ن لیگ اگر غنڈہ گردانہ رویے سے باز نہ آئی تو آگ اس حد تک پھیل سکتی ہے کہ بجھانا مشکل ہوجائے، ایم کیو ایم میں سب لوگ تشدد پسندنہیں ہیںالبتہ کچھ عناصر ایسے ہوسکتے ہیں،عمران خان کا تشدد پسندی کے تناظر میں ایم کیو ایم کا حوالہ دینا غلط تھا، عمران خان نے غصہ اور دکھ میں ن لیگ کو ایم کیوا یم سے مشابہ قرار دیا ۔سلیم صافی نے کہا کہ قانون کوبالائے طاق رکھ کر طاقت کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کے معاملے میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے، جو کام مسلم لیگ ن پنجاب میں کرتی ہے وہی کام پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں، پیپلز پارٹی سندھ میں اور ایم کیوا یم کراچی میں کرتی ہے، ن لیگ کی قیادت وزارت عظمیٰ کو بچانے کیلئے اور پی ٹی آئی کی قیادت وزارت عظمیٰ کی خواہش میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے، ملتان کے جلسہ میں پی ٹی آئی کی قیادت کی بے حسی کے باعث ہلاک ہونے والوں کی بات کوئی نہیں کررہا۔ دوسرے سوال بلدیاتی انتخابات پولیس یا فوج میں سے کس کی نگرانی میں ہونے چاہئیں؟ کا جواب دیتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں فوج کا کردار صرف حساس حلقوں تک محدود ہونا چاہئے، زیادہ حلقوں میں انتخابات پولیس کی زیرنگرانی ہونے چاہئیں، پنجاب پولیس کو سیاست زدہ کردیا گیا ہے ، بلدیاتی انتخابات میں پولیس کی مداخلت کی خبریں بھی آرہی ہیں اس لئے حساس انتخابی حلقوں میں فوج کے کچھ دستے بلائے جاسکتے ہیں۔ حسن نثار نے کہا کہ پنجاب پولیس کی زیرنگرانی بلدیاتی انتخابات ایسے ہی ہیں جیسے دودھ کی نگرانی پر باگڑ بلّا بٹھادیا جائے، مقامی حکومتوں کے انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے تو ہی شفاف انتخابات کی توقع کی جاسکتی ہے، پنجاب پولیس تو خود ایک مسئلہ ہے، سابق آئی جی پنجاب عباس خان ایک رپورٹ میں بتاچکے ہیں کہ ن لیگ نے کتنے جرائم پیشہ افراد پولیس میں بھرتی کروائے ہیں۔