اسلام آباد(نیوزڈیسک) سپریم کورٹ نے الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی کیخلاف ایم کیو ایم کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے، جسٹس اعجاز افضل کہتے ہیں کہ الطاف حسین پر پابندی پندرہ روز کیلئے تھی، عدالتی حکم کو توسیع نہ دینے پر عدالت عالیہ کا حکم خود بخود ختم ہو گیا۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے الطاف حسین کی براہ راست تقاریر پر پابندی کیخلاف درخواست پر سماعت کی، ایم کیو ایم کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے الطاف حسین کے براہ راست بیانات پر پابندی کا حکم دیا، جو الطاف حسین کے بنیادی حقوق اور آزادی رائے کے خلاف ہے، عدالتی استفسار پر عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ یہ حکم سات ستمبر کو یہ جاری کیا، جج کے ریمارکس تھے کہ الطاف حسین معافی مانگ لیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا، الطاف حسین نے تحریری معافی بھی مانگی، لیکن معاملہ تاحال زیر التواء4 ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 19 کے تحت آزادی رائے بھی مشروط ہے، اسی آرٹیکل کے تحت آزادی رائے پر قانونی قدغنیں موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ الطاف حسین کی تقاریر اور بیانات پر پابندی پندرہ روز کے لئے تھی، 7 ستمبر کو پابندی کا حکم دیا گیا،اٹھارہ ستمبر کو اس حکم میں توسیع نہ ہونے کے بعد عدالت عالیہ کا حکم خود بخود ختم ہو گیا، عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت تین نومبر تک ملتوی کر دی، عدالت کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ جسٹس اعجاز افضل کی آبزرویشن کے بعد الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی نہیں رہی۔