پیر‬‮ ، 14 جولائی‬‮ 2025 

کالاباغ ڈیم خیبر پختونخوا کےلئے انتہائی خطرناک ،جماعت اسلامی کا اعلان،نوازشریف سے اہم مطالبہ

datetime 15  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم ہوتااور 2010ءجیسا سیلاب آتا تو پشاور اور مردان پوری ویلی زیر آب آتی۔ میں وفاقی حکومت اور بالخصوص میاں نواز شریف سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے لازماًکالاباغ ڈیم بنانا ہے تو اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پشاور مردان ویلی جس میں پشاور نوشہرہ مردان چارسدہ اور صوابی پانچ اضلاع ہیں ۔ یہاں کے عوام کو کہیں اور منتقل کرلیجئے اور اس پورے علاقے کو ڈیم بنالیجئے۔ اس وقت جو صورتحال دریائے کابل کی ہے کہ اس کے کنارے نہیں ہیں اور تھوڑی سی طغیانی آتی تو اس کے کناروں سے پانی اچھلتا ہے اور کھیت اور مکانات زیر آب آتے ہیں ۔ اگر کالاباغ ڈیم موجود بھی ہو تب بھی یہ سارا علاقہ زیر آب آئے گا۔ اس لئے معقولیت کی بنیاد پر میں یہ اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ کالاباغ ڈیم کی بات پر وزیر اعظم کی طرف سے مکمل اعلان آنا چاہئے کہ کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا اور ان کے کسی وزیر کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ کالاباغ ڈیم کے تعمیر کی بات کریں۔ کالاباغ ڈیم کو تعمیر کرنے کے لئے جو بنیادی وجہ بتائی جاتی ہے وہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنا ہے ۔ ہمارے صوبے میں مختلف ڈیموں اور مختلف پاور پراجیکٹس کی فزیبلٹی رپورٹیں آچکی ہےں ۔ خیبر پختونخوا میں پچاس سے ساٹھ ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور بہت ہی کم قیمت پر پن بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس لئے اس صوبے کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی وزیر اعظم کی ہدایت پر چترال میں گولین گول پاور پراجیکٹ اور کوہستان میں داسو پراجیکٹ زیر تعمیر ہے اور دو تین سالوں میں دونوں پارجیکٹ کام شروع کردیں گے۔ ہمارے صوبے نے چین کے تعاون سے ملاکنڈ تھری پراجیکٹ مکمل کیا جو اس وقت 83میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے ۔اس طریقے سے کئی پراجیکٹ شروع کئے جاسکتے ہیں اور اس میں اگر نقصان ہوگا بھی تو وہ معمولی ہوگا۔ کچھ رقبہ اور جنگلات لازماً زیر آئےں گے لیکن زیادہ تر مقامات وہ ہیں جہاں کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان کی ضرورت سے بھی زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور اسے بیرون ملک برآمد بھی کیا جاسکتا ہے۔ میں آپ کی وساطت سے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے بالخصوص اور وفاقی حکومت سے بالعموم اپیل کرتا ہوں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مزید راگ الاپنے سے گریز کیا جائے اور ہمارے صوبے کو مزید تشویش میں مبتلا نہ رکھا جائے۔ ایک ہی بار اس کا اعلان کیا جائے کہ کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا۔ بعض لوگ اسے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، یہ حربے بالکل ختم ہونے چاہئیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا جو منصوبہ ہے اس میں مغربی روٹ چین کے لئے بھی فائدہ مند ہے اور اس کی فزیبلٹی بھی تیار ہوچکی ہے۔ اس وقت حیلے بہانوں سے اس کو ترک کرکے مشرقی روٹ کی باتیںہورہی ہیں اور اس میں بھی کبھی ایک طرح کی اور کبھی دوسری طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ گلگت سے چترال اور دیر کے راستے غلنئی مہمند ایجنسی سے پشاور اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب اور کوئٹہ تک یہ مختصر ترین راستہ تھا ۔ لیکن جو بات بتائی گئی کہ برہان سے موٹروے پر میانوالی اور میانوالی سے ڈیرہ اسماعیل خان ، ژوب اور کوئٹہ تک لایا جائے گا۔ اس کی فزیبلٹی بھی بنائی گئی ہے لیکن اب یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو برہان سے موٹروے پر لاہور اور پھر لاہور سے پنجاب کے اندر سندھ میں اور پھر کوسٹل ہائی وے پر گوادر تک لے جایا جائے گا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ان علاقوں کو اگر حقوق سے محروم رکھا جائے گا تو میں یہ عرض کروں گا کہ حیلوں بہانوں سے لوگوں کے حقوق کو غصب کیا جائے تو پھر وہاں ظلم اور فساد آجاتا ہے۔ ایسی حالت میں پھر کوئی نظام نہیں چلتا اور بالخصوص پاکستان میں جب آئین کے ذریعے سے تین بنیادی اصول تسلیم کئے گئے ہیں ۔ اسلام ، جمہوریت اور وفاق ہمارے آئین کی تین بنیادیں ہیں اور ان کو کسی بھی صورت تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ وفاق کے اندر وفاقی اکائیوں کے حقوق کاتحفظ بے حد ضروری ہے۔ ان دونوں منصوبوں کالاباغ ڈیم اور پاک چین اقتصادی راہداری میں بھی ہماری موجودہ وفاقی حکومت کے ہاتھوں خیبر پختونخوا کے حقوق اور بلوچستان کے حقوق سلب ہونے کی باتیں ہوئی ہیں جس سے دونوں صوبوںمیں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں صوبے پاکستان کے انتہائی پسماندہ صوبے ہیں۔ وفاق کی اپنی یہی پالیسیاں وفاق کو خطرہ پہنچانے والی ہیں۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ وزیر اعظم اپنے وزراءکو بھی قابو میں رکھیں اورواضح اور دوٹوک اعلان کریں کہ کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا۔ اور اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے بھی واضح اور دوٹوک اعلان ہونا چاہئے کہ مغربی روٹ کو ہی بنایا جائے گا۔ اس روٹ سے وہ جہاں جہاں سے چاہیں سڑکیں لینا چاہیں بے شک لے لیں لیکن مغربی روٹ پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر وفاق منافقت پر مبنی پالیسیاں جاری رکھے گا تو پھر تشویش بھی پائی جائے گی اور یہ حقیقت ہے کہ پھر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے عوام احتجاج پر بھی مجبور ہوں گے اور اگر اس کے باوجود بھی یہی صورتحال رہی تو پھر انتہائی اقدام پر بھی لوگ مجبور ہوں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری وفاق پر آئے گی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حقیقتیں(دوسرا حصہ)


کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…

حکمت کی واپسی

بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…