جرنیل 14اور 15کو بھی میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ جانے کا نہ سوچیں جس پر میں نے انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا ۔ پرویزمشرف نے اپنی تقریر میں کہا تھاکہ صدر نے میری درخواست پر عہدے پر بر قرار رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور میرا شکریہ بھی ادا کیا ۔انہوں نے گارنٹی دی تھی کہ صدر اپنی مدت پوری کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن مریم نواز شریف کا فون آیا کہ نانی اماں فوت ہو گئی ہیں ابااور چچا کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت دی جس پر میںنے مشرف سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ میرے خلا ف تقاریر کریںگے لیکن میں نے انہیں کہا کہ انسانی اقدار کا خیال کریں ۔مجھے دوبارہ 15یا 20منٹ فون آیا اور کہا کہ ان کو اجازت دیں گے لیکن تقریر نہیں ہونی چاہیے اور میں نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔ ایک دفعہ مشرف آئے تو انہوں نے کہا کہ وہاں بہت تقریریں ہوئی ہیں اور مجھے رگڑا لگایا ہے جس پر میں نے انہیں کہا کہ وہ کہاں تھے اورآ پ نے بھی تو انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ انہوںنے کہا کہ پرویز مشرف کی طرف سے آنے والی بہت سی فائلوں پر میں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا ۔ نواز شریف پر انسداد دہشتگردی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لئے فائل میرے پاس نہیں آئی تھی ۔ میں اس لئے بھی بیٹھا ہوا تھا کہ اگر پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف پر قائم کئے گئے مقدمات میں خدا نخواستہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہو گئی تو میں جو ہو سکا کروں گا اور ساری دنیا کے سامنے میرا احتجاج ہوگا ۔ انہوںنے کہا کہ ایک دن پرویز مشرف میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم ججوں سے نیا حلف لینا چاہتے ہیں جس پر میں نے انہیں کہا کہ اس سے ملک کا امیج مزید خراب ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک ایک ہائی رینک افسر سے معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب نے جسٹس خلیل الرحمن خان کو کروڑوں ریال دئیے ہیں تاکہ وہ ججوں میں تقسیم کرکے نواز شریف کو بچانے کا اہتما م کریں جس پر میںنے انہیں کہا کہ میں آپ کو اس افسر کا نام بتا سکتا ہوں وہ کون معزز ہستی ہے اور پھر میں نے نام بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا ۔ ایک دن مشرف میرے پاس آئے اور ججوں کے حوالے سے بات کی تو میں اپنے موقف پر ڈٹا رہا جس پر انہوںنے کہا کہ میں قانون کا آدمی نہیں میں لیگل ٹیم کے ساتھ آتا ہوں جسکے بعد وہ رات نو بجے خود ،شریف الدین پیرزادہ اور دیگر لوگوں کے ساتھ آئے اور رات دو بج گئے او ر میرا یہی موقف تھا کہ اس سے ملک کی مزید بدنامی ہوگی جس پر مجھے کہا گیا کہ پنجاب کے سارے جج ساتھ ہیں اور انہوں نے بھی کہا ہے کہ ہم باقیوں کو بھی ٹھیک کر لیں گے لیکن حلف آ گیا اور اس میں گنجائش رکھی گئی کہ اگر صدر مملکت حلف لینے سے انکار کر دیں تو چیف ایگزیکٹو حلف لے سکتا ہے ۔ حلف لینے سے پہلے مشرف میرے پاس آئے او رکہا کہ جسٹس خلیل الرحمن خان کو کہیں وہ حلف لے لیں لیکن میں نے کہا کہ وہ اصولوںکا آدمی ہے وہ اصولوںں پر دوستی قربان کر سکتا ہے لیکن انہوں نے کہا آپ میر اپیغام دیں میں نے کہا کہ فون پڑ ا ہے آپ خود بات کر لیںلیکن انہوں نے فون نہ کیا اور میں نے جسٹس خلیل الرحمن خان کو فون کیا اور کہا کہ جنرل صاحب میرے پاس بیٹھے ہیں او ران کی خواہش آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ حلف لے لیں جس پر انہوںنے واضح میں انکار کر دیا کہ میں حلف نہیں لوں گا۔ انہوںنے کہا کہ جون کے پہلے ہفتے کے آخری دن طارق عزیز میرے پاس آئے اور کہا کہ پرویز مشرف کہہ رہے ہیں کہ صد رنے ہمیں کبھی ڈنر پر نہیں بلایا میں نے کہا کہ تاریخ اور تعدادبتائیں جس پر انہوں نے کہا کہ ہم 13تاریخ کو آرہے ہیں اور مشرف کے ساتھ جنرل محمود اور دیگر لوگ آئے تھے ۔ پھر ایک دفعہ مشرف نے کہا کہ میں پچھلے ہفتے بھی آپ کے دفتر آیا تھا اور آدھا گھنٹہ بیٹھا رہا لیکن آپ سے بات نہیں کہی تھی کیونکہ میں ہمت نہیں کر سکا لیکن ملک میں سرمایہ کاری نہیں آرہی جس پرساتھیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں صدر بن جاﺅں ۔ جس پر میں نے انہیں کہاکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے جو چیز تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ اپنے بھائی کیلئے کیوں پسند کرتا ہے
۔جب نواز شریف نے آپ کو نکالا تو آپ کو کیسا لگا تھا اور آپ مجھے کہہ رہے ہیں جس پر ان کا چہرہ لٹک گیا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ ملکی مفاد کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے بھارت جانا تھا ۔ پھر مشرف آئے اور کہا کہ آپ استعفیٰ دیدیں تو میں نے کہا کہ بھول جائیں۔ صدر کا عہد ہ سنبھالنا میری خواہش نہیں تھی یہ سیدھا اوپر سے آیا ہے میں ناشکری نہیں کروں گا اور پھر نہ اسمبلی ہے اور نہ اسپیکر ہے ۔ اگلی رات جنرل مشرف آئے اور کہا کہ ہم بڑے شرمند ہ اور شرمسار ہیں جس پر میں نے انہیں کربلا کاایک واقعہ سنایا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ آپ 20تاریخ کو فارغ ہیں ۔ جنرل محمود نے کہا کہ 21تاریخ کو آپ کو گارڈ آف آرنر میں پرویز مشرف آپ کو سلیوٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ سڑ ک کی بجائے ہوائی راستے سفر کریں اور گورنر پنجاب آپکا استقبال کریں گے او رآپ کو گھر چھوڑ کر آئیں گے ۔ میں نے کہا کہ میں دوست کو فون کر چکا ہوں وہ دو گاڑیاںں بھجوا دے گا ۔ پھر طارق عزیز نے کہا کہ آپ نے بذریعہ سڑک ہی جانا ہے تو آپ اپنے زیر استعمال گاڑیوں پر جائیں جسے میں نے تسلیم کر لیا اور میں نے اپنے دوست کو منع کر دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے طارق عزیزنے کہا کہ پونے گیا رہ بجے پرویز مشرف کو واجپائی کا فون آنا ہے اور پانچ منٹ گفتگو ہونی ہے فون آیا اور واجپائی کی طرف سے پرویز مشرف کو بطور صدر مبارکباد دی گئی جس کا مطلب ہے کہ وہاں خبر پہنچ چکی تھی ۔ مجھے مشرف نے پھر کہا کہ ہم شرمند ہیں جب انہوں نے مجھے سلیوٹ کیا تو میں نے چہرہ دوسری طرف کر لیا ۔ انہوںنے الیکشن کمیشن کے حوالے سے کہا کہ یہ ایسا آفس ہے جہاں ہارنے والا قبول نہیں کرتا اور اس کا کوئی حل نہیں اس کے لئے سیاستدانوں کو ہی بلوغت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔