رہیں مجھ سے 112سے زائد سوالات پوچھے گئے جس کے میں نے تحریری جوابات دیئے لیکن یہ بھی واضح کرتا چلو کہ غیر قانونی مائینگ پر 714ایف آئی آر کاٹی گئیں جن میں سے 97وزیراعلیٰ کے ضلع نوشہرہ سے متعلق ہیں میں اور میرا محکمہ کسی کے خلاف ایف آئی آر تو کاٹ سکتا ہے لیکن گرفتار پھر پولیس کرتی ہے میں نے وزیراعلیٰ کے فرنٹ مین اور اس کے قریبی رشتہ داروں کے خلاف ایف آئی آر کاٹی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ آج تک ان میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا ضیاءاللہ آفریدی نے بتایا کہ تنگی ، ایبٹ آباد اور نظام پور کے مائینگ میں کئی اہم شخصیات ملوث ہیں ، سیمنٹ انڈسٹری بھی غیر قانونی مائینگ کررہی تھی میری گرفتاری میں مافیا اور کچھ خاص لوگ موجود ہیں انہوں نے آئی جی پولیس کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آئی جی کے تمام تر اقدامات سطحی ہوتے ہیں حقیقت میں وہ کچھ بھی نہیں کررہے ہیں،آن لائن ایف آئی آر کے شوشے چھوڑے جارہے ہیں لیکن میرے تحریری ایف آئی آر کے باوجود بھی کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا،ضیاءاللہ آفریدی نے اپنی 45منٹ کی تقریر میں بتایا کہ صوبائی حکومت کی کابینہ میں سمگلرز بیٹھے ہوئے ہیںاور وہ لوگ جو بریف کیسز لیکر دوسروں کو خریدتے ہیں انہوں نے کہا کہ دھرنے کے دوران وزیراعلیٰ نے صوبائی وزراءعاطف خان ، شاہ فرمان اور اشتیاق ارمڑ کے سامنے انہیں کہا کہ دھرنے میں کارکنوں کو مت لاﺅ پارٹی کے خلاف اندر اور باہر سے سازشیں ہورہی ہیں اس لئے پارٹی چیئرمین عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ پارٹی کے کور کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے چند چیدہ صحافیوں اور ٹاﺅن ون کے ممبران کو بھی اس اجلاس میں دعوت دیں لیکن وزیراعلیٰ اس اجلاس میں شرکت نہیں کرینگے اور پھر میرے خلاف آزادنہ تحقیقات کی جائیں اگر مجھ پر الزامات ثابت ہوتے ہیں تو میں خود اس ایوان سے مستعفی ہوجاﺅں گا۔اسمبلی اجلاس کے دوران رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں ترمیم کو بھی منظور کیا گیا جس کے تحت صوبائی اسمبلی سے متعلق بھی معلومات طلب کی جاسکتیں ہیں ۔