جنہیں جان بوجھ کر یا پھر غیر ارادی طور پر فورسز نے پُر کیا حالانکہ ان معاملات میں شامل ہونے کا ان کا کوئی کام نہیں تھا۔ آئین نے منتخب نمائندہ حکومتوں کو مکمل اختیارات (ایگزیکٹو اتھارٹی) دیئے ہیں۔ مشترکہ اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے یہ سیاست دانوں کی ناکامی تھی کہ وہ دہشت گردی اور کرپشن کو روک نہ سکے اور امن عامہ قائم نہ کر سکے، اچھا طرز حکمرانی قائم نہ کر سکے اور اپنی رٹ اور ساکھ برقرار نہ رکھ سکے اور وہ اس حد تک ڈگمگا گئے کہ اپیکس کمیٹیوں کا ایک نیا نظام قائم کرنا پڑا، جو کسی حد تک آئینی حدود کے باہر ہے، اور اس میں بظاہر یا پھر ڈھکے چھپے انداز میں نظریہ ضرورت کا اصول بھی کار فرما ہے۔ جب سیاست دانوں کی ساکھ ختم ہوگئی تو انہیں ایک ایک کرکے اپنے اختیارات سے ہاتھ دھونا پڑا، اور آج ملک اپیکس کمیٹیوں کے تحت چل رہا ہے جس میں حکومتیں، پارلیمنٹ اور ریاست کے دیگر ادارے تقریباً لا تعلق ہو چکے ہیں یا پھر منتخب حکومتوں کی جانب نہیں بلکہ دیگر قوتوں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ایک افسوس ناک تبصرہ ہو سکتا ہے کہ نیب، ایف آئی اے، رینجرز اور دیگر اداروں کو غیر اعلانیہ اجلاسوں، بریفنگز فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کے تحت فعال ہونا پڑا۔ لہٰذا، جمعرات کو ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اگر تمام شرکاء پہلے سے طے شدہ اور آرمی چیف کی اعلانیہ سمت میں چلنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو آپریشن کو مزید تقویت اور تیزی ملے گی۔ اگر سیاست دانوں نے مزاحمت کی، تو یہ نیشنل ایکشن پلان میں پیشرفت کیلئے ایک یادگار اور نئی سمت متعین کرنے کا موقع ہوگا۔ یہ طے ہے کہ چاہے کچھ ہوجائے، آپریشن آگے بڑھنا ہے۔