تو اس کو مشترکہ اپوزیشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔ فی الوقت ن لیگ کے سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ تعلقات کشیدہ جبکہ ایم کیو ایم کے ساتھ ختم ہوچکے ہیں،ان کوواحد بالادستی یہ حاصل ہے کہ اپوزیشن ایک صفحہ پر نہیں اور پی پی، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم تقسیم ہیں مستقبل قریب میں کسی گرینڈ اپوزیشن الائنس کا امکان معدوم ہے۔ پی پی بھی زمینی حقائق سےآگاہ ہے اسی لئے اس نے سندھ اسمبلی سے استعفے یا تحلیل کرنے کا فیصلہ روک دیا دوسری جانب ایم کیو ایم نے دو غلطیاں کی ہیں (1)اسمبلیوں و سینیٹ سے استعفیٰ (2)پی پی اور ن لیگ دونوں سے الجھنا وزیراعظم کے لئے مسائل پیدا کرنے والی کوئی نمایاں سیاسی مزاحمت موجود نہیں، کراچی میں صورتحال نے ایم کیو ایم کے بعد سیاسی موڑ لیا ہے اور اب سندھ حکومت نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بلوچستان میں حالیہ پیش رفت حکومت کے لئے امید کی کرن ہے، تاہم سندھ وزیراعظم کیلئے امتحان ہو گا، بہرحال اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوں گے۔ تاہم وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سابق صدر آصف زرداری سے تازہ ہدایات لے کر منگل کو دبئی سے واپس آئے ہیں،وہ نیب اور ایف آئی اے کی سرگرمیوں پر ’’چیک ‘‘ رکھنے کا مطالبہ کریں گے، جن کو سندھ آئین سے بالاتر قرار دیتاہے، چنانچہ کیا ایف آئی اے، نیب کو سندھ میں کارروائیوں سے روکنے کے لئے قائم علی شاہ کے مطالبہ کو تسلیم کیا جائے گا، جس کا یقین وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے دورہ کراچی میں دلایا تھا؟ اس کا امکان نظر نہیں آتا تاہم ڈاکٹر عاصم کے ساتھ کوئی ناانصافی ہونے پر وزیر داخلہ رپورٹ طلب کر سکتے ہیں، حکومت نیب کے معاملے میں بھی زیادہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ خود مختار ادارہ ہے،نواز شریف حکومت ان کیسز میں سندھ حکومت کو زیادہ ریلیف نہیں دے سکتی، جن میں اس کے بیوروکریٹس اور آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں کو رینجرز، ایف آئی اے یا نیب نے گرفتار کر لیا ہے یا زیر تفتیش ہیں، یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سندھ کابینہ کے رکن ڈاکٹر عاصم حسین کے معاملے میں کیا پوزیشن
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں