جو بیرونی امداد مل رہی ہے وہ بھی اسی علاقے کی مرہونِ منت ہے لیکن یہ علاقہ ابھی بھی سب سے پسماندہ ہے۔ ساجد حسین طوری کا کہنا تھا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ان علاقوں کے عوام کو ان کے آئینی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس علاقے کے عوام کو اپنے مسائل اجاگر کرنے کے لیے کوئی مناسب فورم دستیاب نہیں ہے۔ساجد حسین طوری نے کہا کہ یا تو ان علاقوں کو علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے یا پھر اس کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے۔انہوںنے کہاکہ اگر حکومت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرسکتی تو کم سے کم گلگت بلتستان کی طرح ان علاقوں میں ایگزیکٹیو کونسل ہی بنا دی جائے۔فاٹا سے منتخب ہونے والے رکنِ قومی اسمبلی غازی گلاب جمال کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان علاقوں کے عوام کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ان علاقوں میں ایگزیکٹیو کونسل بنانے کے لیے سکیورٹی فورسز کے حکام سے بھی بات ہوئی ہے جنھوں نے اس ضمن میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔غازی گلاب جمال نے کہا کہ سیفران کی وزارت نے بھی اس معاملے میں کچھ حد تک رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ گورنر خیبر پختونخوا کے ماتحت فاٹاسیکرٹریٹ نے اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو ڈیموکریٹک علاقہ قرار دیا جائے اور ایگزیکٹیو کونسل فی الفور تشکیل دی جائے اور یہاں سے منتخب ہونے والے ارکان کو اس کونسل کا رکن منتخب کیا جائے جبکہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں اس کونسل کے ارکان کو براہ راست منتخب کیا جائے۔غازی گلاب جمال کے مطابق فاٹا کے عوام بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل مقامی سطح پر حل کیے جائیں کیونکہ معمولی نوعیت کے مسائل کے حل کے لیے انھیں فاٹا سیکریٹیریٹ کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔