اس میں پی این اے کی جانب سے مولانا مفتی محمود ، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد جبکہ پیپلز پارٹی کی سہہ رکنی مذاکراتی ٹیم میں بھٹو صاحب کے علاوہ مولانا کوثر نیازی اور حفیظ پیرزادہ شامل تھے۔ جب دو جولائی کو سمجھوتہ ہوا تو اس کا حتمی مسودہ پروفیسر غفور اور حفیظ پیرزادہ نے ہی تیار کیا تھا ۔( یکم ستمبر 2015کو اس باب کا آخری کردار بھی انتقال کرگیا )۔پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیا نے حکومت کا تختہ الٹا تو پی این اے کے رہنماو ¿ں کے ساتھ ساتھ بھٹو سمیت پوری کابینہ کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ کچھ دنوں میں سب رہا ہوگئے۔البتہ ستمبر میں ضیا حکومت نے پکڑ دھکڑ شروع کی اور بھٹو صاحب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبشر حسن اور حفیظ پیرزادہ کو بھی گرفتار کرلیا ۔مبشر اور پیرزادہ تو چند ماہ بعد رہا ہوگئے البتہ بھٹو صاحب کو نواب محمد احمد خان کے مقدمے میں گانٹھ لیا گیا۔بھٹو صاحب کی لیگل ٹیم میں حفیظ پیرزادہ بھی شامل تھے۔جب فروری 1979 میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تو اس دن پیرزادہ ہی کورٹ روم میں تھے ۔بیگم بھٹو حراست میں تھیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اپیل مسترد ہونے کے بعد پیرزادہ نے اپنے طور پر ضیا الحق کو رحم کی درخواست بھجوائی جس کے بارے میں چیف مارشل لا سیکریٹریٹ نے دعوی کیا کہ یہ موصول ہی نہیں ہوئی۔ اس دعوی کے بعد پیرزادہ نے بیگم بھٹو سے کہا کہ اب مجھے پکا یقین ہوگیا ہے کہ ضیا ہر قیمت پر پھانسی دینے کا فیصلہ کرچکا ہے۔1982 میں ضیا حکومت نے پیرزادہ سمیت پیپلز پارٹی کے کئی کارکنوں کو حراست میں لیا اور پھر رہا کردیا۔ حفیظ پیرزادہ برطانیہ چلے گئے اور وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ وہاں سرحد ، بلوچستان اور سندھ کے کچھ سرکردہ جلا وطن قوم پرست رہنماو ¿ں کے ساتھ مل کر سندھی ، بلوچ ، پشتون فرنٹ کی بنیاد رکھی جس کا نظریہ یہ تھا کہ وفاقی نظام ناکام ہوچکا ہے اور اب اگر کوئی نظام ملک بچا سکتا ہے تو وہ کنفیڈرل نظام ہے۔گویا پیرزادہ نے