سن 1970 میں انھوں نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے قومی انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔جب انتخابات کے بعد بھٹو مجیب مذاکرات کے کئی لاحاصل ادوار ہوئے تو ان میں پیرزادہ بھی شامل تھے۔دسمبر 1971 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا تو پہلی کابینہ میں حفیظ پیرزادہ کو تعلیم اور ثقافت کا قلمدان دیا گیا۔اس لحاظ سے وہ پاکستان کے پہلے وزیرِ ثقافت تھے۔چند ماہ بعد پیرزادہ کو قانون اور پارلیمانی امور کی وزارت سونپی گئی اور قومی اسمبلی کی آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے ۔ پیپلز پارٹی اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں پر مشتمل اس کمیٹی نے 1973 کا تاریخ ساز آئین مرتب کیا۔ پیرزادہ نے ہی آئین کا مسودہ متفقہ منظوری کےلئے پارلیمان میں پیش کیا۔ذوالفقار علی بھٹو اس کارنامے سے اتنے خوش تھے کہ آئین کے نفاذ کے بعد ایک بھری پریس کانفرنس میں حفیظ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ تو میرا سوہنا منڈا ہے۔1973 کے آئین کے تحت بین الصوبائی رابطہ کی وزارت پہلی بار قائم ہوئی اور پیرزادہ کو اس کا قلم دان سونپا گیا۔مارچ 1977 کے متنازعہ انتخابات میں حفیظ پیرزادہ دوسری اور آخری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر جون میں بطور وزیرِ خزانہ بھٹو حکومت کا آخری بجٹ بھی انھوں نے ہی پیش کیا۔نو ستاروں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائینز اور بھٹو حکومت کے درمیان نئے انتخابات کرانے کے معاملے پر اپریل تا جون تھکا دینے والے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا