لاہور (نیوزڈیسک) صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ ٹربیونل کے فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرنا آئینی طریقہ کار ہے تاہم اگر سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلوں کو برقرار رکھا تو ان حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو عام انتخابات سے بھی زیادہ عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا ، میں کاظم علی ملک کا بطور جج اور انسان احترام کرتا ہوں لیکن ہمیں ان کے فیصلے پر تحفظات ہیں ، ان کے بیٹے کے الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند ہونے بارے مجھے وارث کلو نے بتایا تھا جو آج بھی رکن اسمبلی ہیں ۔لاہورمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناءاللہ نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے بعد معاملات بارے آئین میں طریقہ کار درج ہے اور آئین و قانون کی نظر میں اگر کسی کو الیکشن ٹربیونل کے فیصلے پر اعتراض ہو تو وہ اپیل میں جا سکتا ہے ۔ ٹربیونلز میں 400 سے زائد انتخابی عذرداریاں دائر کی گئیں جن میں سے متعدد کے فیصلے مسلم لیگ (ن) کے حق میں آئے اور بعض کے فیصلے خلاف بھی آئے ۔ لیکن ایک آئینہ طریقہ کار موجود ہے دھرنا سیاست ، الزام تراشی ، پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑنے کی بجائے آئینی طریقہ کار ہی استعمال کرنا چاہیے اگر اس طرح 40حلقو ں میں ضمنی انتخاب کا حکم آتا ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل نے لودھراں کے جس حلقے کا فیصلہ دیا ہے وہاں پر (ن) لیگ کا امیدوار تیسرے نمبر پر تھا ،بتایا جائے وہاں کس نے دھاندلی کی ۔ انہوںنے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ بے ضابطگیاں اور کمی کوتاہی سسٹم کے اندر ہے اور اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ 50کے قریب حلقوں بارے الیکشن ٹربیونل کے فیصلوں کے بعد دوبارہ ضمنی الیکشن ہوئے اور سسٹم کی کمزوریوں پر قابو پایا گیا ۔ ہری پور ہو یا منڈی بہاﺅ الدین پی ٹی آئی کسی فیصلے پر اعتراض نہیں کر سکتی اور وہاں سے پی ٹی آئی کی شکست سب کے سامنے ہے ۔ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ حالیہ دنوں میں الیکشن ٹربیونل نے جن حلقوں بارے فیصلے دیئے ہیں اگر سپریم کورٹ ان فیصلوں کو برقرار رکھتی ہے تو ضمنی الیکشن ہو جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کو 11مئی 2013ءکے عام انتخابات سے زیادہ عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور عوام ان کی اوئے توئے اور دھرنے کی سیاست کی دفن کر دیں گے لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ شاید سپریم کورٹ میں الیکشن ٹربیونل کے فیصلے اپ ہولڈ نہ ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا الیکشن کمیشن کے اراکین سے مستعفی ہونے کا مطالبہ غیر آئینی ہے اور انہیں اس سے دستبردار ہونا چاہے اور آئینی طریقہ کار کے مطابق چلنا چاہیے اگر اسی طرح دھونس دھاندلی اور دھمکی سے الیکشن کمیشن کے ممبران کو مستعفی کرایا جاتا رہا تو اس ملک میں کبھی بھی آزاد الیکشن کمیشن کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ نومبر 2013ءمیں کاظم علی ملک کو بطور ڈی جی اینٹی کرپشن تحریک استحقاق کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اسی سلسلے میں انہیں ایوان میں اپنے خلاف تقاریر بھی نہ گوار گزری تھی اور انہی ناپسندیدہ اور کشیدہ حالات کے باعث انہوں نے ڈی جی اینٹی کرپشن کے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت کا تعصب ان کے ذہن میں پایا جاتا ہو اور جو ان کے فیصلے میں جھلک بھی رہا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کاظم علی ملک کے فیصلوں پر تحفظات ہیں لیکن اس معاملے پر جوڈیشل کونسل میں جانے کا کوئی ارادنہیں ہے ۔