کراچی(نیوزڈیسک) ایف بی آر کے 3سابق چیئرمینوں کے خلاف 100 ارب روپے کی مبینہ کرپشن کی تفصیلات منظر عام پر آ گئی ہیں۔ سابق چیئرمین عبداللہ یوسف، ارشد حکیم اور سلمان صدیق نے قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر قربان کر کے agility نامی کمپنی سے مل کر قومی خزانہ کو 100 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ ذرائع سے حاصل مصدقہ معلومات اور دستاویزات کے مطابق اس کرپشن کا آغاز 2005-06 میں ہوا جو 2014 تک جاری رہی۔ ایف بی آر کی انکوائری رپورٹ میں اجیلٹی نامی کمپنی اور افسران کو بری الذمہ قرار دے کر انکوائری سرد خانے میں ڈال دی گئی۔ نیب نے اب اس بڑے سکینڈل کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ 2003 میں اجیلٹی نامی کمپنی نے ایف بی آر کے شعبہ کسٹم کو تجاویز پیش کیں حالانکہ کمپنی مجوزہ میعاد پر پورا بھی نہیں اترتی تھی۔47 دیگر کمپنیوں نے بھی اظہار دلچسپی کی درخواستیں جمع کرائیں تھیں تاہم ایف بی آر نے اپنا پائلٹ پراجیکٹ اس کمپنی کو ایوارڈ کر دیا جس کے خلاف امریکہ کی کمپنی بیرنگ پوائنٹ ورجینیا نے شدید احتجاج کیا ۔ ایف بی آر کے کرپٹ افسران اظہر مجید خالد اور عاشر عظیم نے عبداللہ یوسف کو اعتماد میں لے کر مجوزہ کمپنی کو ایک کسٹم ٹرمینل کی بجائے دیگر دو ٹرمینل کا ٹھیکہ بھی دیدیا۔ اس کمپنی کے کنٹری نمائندہ ارشد حکیم تھا جس کو زرداری حکومت نے بعد میں چیئرمین نادرا اور چیئرمین ایف بی آر تعینات کیا تھا ۔ کرپٹ افسران نے یہ کنٹریکٹ دیتے وقت عالمی بینک کی ہدایات کی بھی پروا نہ کی اور حکومت کویت اور ایف بی آر کے چیئرمین عبداللہ یوسف کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے گئے جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی ۔ عبداللہ یوسف کے سفری اخراجات بھی اجیلٹی نامی کمپنی نے ادا کئے۔ کمپنی کو فائدہ دینے کے لئے عبداللہ یوسف اقبال منیب اور عاشر عظیم نامی افسران نے ٹینڈرز میں ردو بدل کیا جس کے نتیجہ میں ورلڈ بینک نے احتجاج کرتے ہوئے 27 ملین امریکی ڈالر کی قسط روک لی تھی۔ کمپنی نے آڈٹ کمپنی صدات حیدر اینڈ مرشد سے بھی تعاون نہیں کیا جس کے نتیجہ میں آڈٹ رپورٹ میں کمپنی کی اہلیت کے بارے میں منفی رپورٹ جاری کی گئی جس پر وزارت خزانہ کو ہدایت کی گئی کہ ایجلٹی نامی کمپنی کو پائلٹ پراجیکٹ ایوارڈ کرنے کی تحقیقات کیں جائیں ۔ ورلڈ بنک نے بھی ایف بی آر کو معاہدہ سے الگ ہونے کی ہدایت کی جس کے نتیجہ میں اجیلٹی کمپنی نے یقین دہانی کرائی کہ پی اے سی سی مفت سروس فراہم کرے گی ۔ تاہم 2009 میں کمپنی اپنے وعدے سے مکر گئی اور دھمکی دی کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو تمام سسٹم کو جام کر دے گی کمپنی کے سیاسی دباﺅ سے ایف بی آر سے 11 ملین روپے بھی وصول کرائے تاہم کمپنی نے سوفٹ ویئر دینے کے لئے 10 ملین ڈالر طلب کئے تھے ۔ نیب حکام نے اس سکینڈل کی اعلی پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کر دیاہے اس حوالے سے ایف بی آر سے موقف جاننے کی کوشش کی لیکن وضاحت نہیں مل سکی ۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں