لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) حکومت کی طرف سے آئندہ مالی سال
یعنی 16-2015ئ کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ سے متعلق مختلف رائے سامنے آرہی ہیں ، کچھ حکومت بجٹ کی طرف داری کررہے ہیں تو بیشتر لوگ اس کو ’عوام دشمنی‘ سے تعبیر کررہے ہیں۔ سینئر صحافی نذیر ناجی نے اپنے کالم میں لکھاکہ’جب اسحاق ڈار صاحب نے اپنی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کیا، تو میں نے اسی وقت بچوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آئس کریم گھروں میں چھپ کر کھائیں۔ اگر ڈار صاحب کی نظر پڑگئی، تو پھر آئس کریم کھانا مشکل ہوجائے گا۔ بچوں نے احتیاط نہیں کی۔ ڈار صاحب نے بچوں کو آئس کریم کھاتے دیکھ لیا اور اب سال بہ سال اسے اتنی مہنگے کرتے چلے جارہے ہیں کہ ان کے والدین اب دکھانے کے لئے بھی انہیں بازار نہیں لے جاسکتے۔ میرا خیال تھا کہ بات آئس کریم پر ختم ہوجائے گی۔ لیکن وہ ڈار صاحب ہی کیا؟ جو کسی کے پاس گنجائش چھوڑ دیں۔ اب تو انہیں تین سال کا تجربہ ہوچکا ہے۔ کوئی غریب آدمی لنڈے سے پرانا جوتا خرید کر پہن لیتا ہے توفوراً اپنے سٹاف کو نوٹ کرادیتے ہیں کہ اس غریب آدمی نے یہ جوتا کہاں سے پہنا؟ جب ٹیکس لینے والے عملے نے اس بندے سے تفتیش کی، تو پتہ چلا کہ جوتا اس نے نہ تو بازار سے خریدار ہے اور نہ کسی نے تحفے میں دیا ہے۔ یہ جوتا اس نے لنڈے بازار سے رعایت لے کر خرید لیا تھا۔ اسے یہ خبر نہیں تھی کہ ڈار صاحب اسے بھی مہنگا کردیں گے۔
دو بجٹ بنانے کا تجربہ حاصل کرکے ڈار صاحب، غریبوں کی منڈائی میں ماہر ہوچکے ہیں۔ اس سال انہوں نے دفاع کے لئے 7 کھرب 80 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 فیصد اضافہ ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 29 فیصد کا اضافہ کرکے 7 کھرب روپے لگایا ہے۔ آئندہ سال ڈار صاحب کی حکومت نے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 40 کھرب 89 ارب روپے لگایا ہے۔ جبکہ حکومتی اخراجات کا کل تخمینہ 31 کھرب 51 ارب روپے ہوگیا ہے۔ یہ موجودہ حکومت کا صرف تیسرا بجٹ ہے۔ ڈار صاحب کا دعویٰ ہے کہ 2014ئ میں پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب تھی، لیکن اب انہوں نے معیشت کی ڈوبتی کشتی کو سنبھال لیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجٹ خسارہ رواں مالی سال کے دوران عام پیداوار کے 5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ آئندہ مالی سال میں بجٹ کے خسارے کو مزید کم کرکے 4.3 فیصد تک لایا جائے گا۔ آئندہ مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ساڑھے 7 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ جبکہ سرکاری ملازمین کے میڈیکل الا?نس میں بھی 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن سے متاثر ہونے والے افراد کیو اپسی اور بحالی کے لئے جامع منصوبہ بنایا ہے۔ آئندہمالی سال کے بجٹ میں اس مد میں ایک کرب 16 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جن میں سے 80 ارب روپے خصوصی ٹیکس کے ذریعے اکٹھے کئے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ 50 کروڑ روپے سالانہ منافع کمانے والی کمپنیاں دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے اپنی آمدنی کا 3 فیصد ٹیکس دیں گی، جو صرف ایک مرتبہ ہوگا۔ اگلی مرتبہ دیکھا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں پانی کے ذخائر کے منصوبوں کے لئے 31 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ دیہی علاقوں کے طلبا کو وظائف دینے کے لئے کافی رقم مختص کی گئی ہے۔ آئندہ مالی سال میں ایک کھرب 42 ارب روپے سےز ائد رقم ان وظائف کے لئے مخصوص کی جائے گی۔ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے لئے 71 ارب روپے اکٹھے کئے جائیں گے۔ ریلوے کے لئے 78 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جس سے 170 نئے انجن خریدے جائیں گے۔ بجٹ میں ریلوے سٹیشنوں کو بہتر بنانے کے لئے فنڈ علیحدہ رکھے گئے ہیں۔
ہر چند لوگوں نے جنگلا بس سروس کو پسند نہیں کیا، لیکن عوام کی پسند ناپسند سے کیا فرق پڑتا ہے؟ حکومت نے پسند کرلیا ہے کہ وہ عوام کو ترقی دے کر میٹرو بس سروس کا عادی بنائے گی۔ اس مقصد کے لئے 2 ارب رکھ دئیے گئے ہیں۔ بدخواہوں کا کہنا ہے کہ اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عوام کا فائدہ اسی میں ہے۔ ہر چند عوام ہاتھ جوڑ کر التجائیں کررہے ہیں کہ انہیں میٹروبس کی ضرورت نہیں۔ وہ کھٹارا بسوں میں سفر کرکے اپنا کام چلالیا کریں گے۔ لیکن حکمرانوں کا خیال ہے کہ ان کی رعایا تھرڈ کلاس بسوں میں دھکے کھانے کے قابل نہیں۔ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کی خاطر ان کے لئے میٹرو بس سروس چلائی جائے گی۔ وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ جب عوام کی جیب سے میٹرو بس کے لئے رقم نکالی جائے گی، تو انہیں احساس ہوگا کہ ملک کتنی ترقی کررہا ہے؟ منتخب حکمران جو عوام کو پیار کرتے ہیں، وہ یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ امریکہ اور یورپ میں لوگ آرام دہ بسوں میں سفر کریں اور ان کی پاکستانی رعایا کھٹارا بسوں میں دھکے کھائے۔
بعض بدگمانوں کا خیال ہے کہ حکومت میٹرو بس کے منصوبے، ووٹ حاصل کرنے کے لئے بنارہی ہے۔ ان بیوقوفوں کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ن لیگ کی حکومت ووٹوں کی محتاج نہیں۔ جب اسے کامیاب ہونا ہو تو ووٹ از خود آجاتے ہیں۔ 2013ئ کے انتخابات میں عوام نے کب ن لیگ کو ووٹ دئیے تھے؟ لیکن ن لیگ دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوکر برسراقتدار آگئی۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ رعایا مسلم لیگ کی ہو اور وہ کھٹارا بسوں میں سفر کرے۔ پرویز مشرف، چوہدری شجاعت حسین اور اب ن لیگ کی وکالت کا وسیع تجربہ رکھنے والی ماروی میمن، لوگوں کو قائل کرنے میں ماہر ہوچکی ہیں۔ پہلے تو وہ کوشش کرتی ہیں کہ دلائل سے اپنے مخالفین کو قائل کریں۔ جب اس سے کام نہیں چلتا، تو ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتی ہیں اور آخر میں مخالفت کرنے والے بے حال ہوکر، ان کے دلائل کے سامنے سرجھکا دیتے ہیں۔ (ن)لیگ کی حکومت کا تیسرا بجٹ بھگتاتے ہوئے، وہ آدھے سے زیادہ مخالفین کو قائل کرچکی ہیں۔ اب مخالفین ان کی ڈانٹ ڈپٹ سن کر سہم جانے کی عدالت ڈال چکے ہیں۔ ان کے باوجود اگر کوئی ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے ان کے دلائل سے قائل نہ ہو، تو کراٹے کے ایک دو ہاتھ مارنا انہیں آگیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اپنی جماعت کے نفع بخش پروگرام سے دوسرے صوبوں کے عوام کو بھی مستفید کرنا چاہتی ہے۔ ن لیگ کا اصول یہ ہے کہ اس کے پروگرام سے عوام کو فائدہ ہو نہ ہو، انہیں ماروی میمن کی ڈانٹ ڈپٹ سے قائل کیا جاسکتاہے کہ وہ ڈار صاحب کے ترقیاتی منصوبوں سے ضرور مستفید ہوں۔ ڈار صاحب کا ایک منصوبہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں 16 ارب روپے کی لاگت سے صدر اور سرجانی ٹا?ن کے درمیان ایک شاندار بس سروس شروع کی جائے گی، جسے کرچی کے عوام کے لئے تحفہ قرار دیا جائے گا۔ جو نہیں مانے گا، اسے پولیس ریمانڈ پر لے کر سمجھائے گی کہ حکومت کا یہ منصوبہ ان کے لئے انتہائی فائدہ مند ہے۔ عوام کو اس سروس سے فائدہ ا ٹھانے کے بعد مجبور ہوکر ن لیگ کو ووٹ دینا پڑیں گے۔ نیز لیپ ٹاپ وغیرہ تقسیم کرکے، حکومت اپنی مقبولیت میں مزید اضافہ کرے گی اور اگر کراچی کے لوگ اس شاندار خدمشت پر خوش نہیں ہوں گے، تو لاہور سے ایک دو گلو بٹ منگوا کر، کراچی والوں کو منوایا جائے گا کہ ن لیگ کی حکومت، ان کی جو شاندار خدمات انجام دے رہی ہے، دنیا کی کوئی اور پارٹی ایسا نہیں کرسکے گی۔ حکومت نے 1500 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں 700 ارب روپے توانائی کے منصوبوں کے لئے مختص کرنا ہیں۔
وزیر خزانہ نے توانائی کے شعبے کے لئے بھاری رقم رکھنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ 248 ارب روپے پچھلے سال کی وصولویں سے نکالے جائیں گے۔ یہ رقم پچھلے سال اس مد میں رکھی گئی رقم سے 48 ارب روپے سے زائد ہوگی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ توانائی کے ان منصوبوں سے عوام کو سستی بجلی میسر آئے گی۔ حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے عادی عوام کو جب لوڈشیڈنگ میسر نہیں آئے گی، تو مزید ٹیکس لگا کر لوڈشیڈنگ کا انتظام کردیا جائے گا۔ جس طریقے سے ڈار صاحب ٹیکسوں اور بڑھائی گئی قیمتوں سے بھاری رقوم جمع کرکے، ترقیاتی منصوبے پورے کرنے والے ہیں، اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری یہ حکومت باقی ماندہ تین سال پورے ہونے سے پہلے پہلے عوام کو خوشحال بنا کر دم لے گی۔ عوام کو خوشحالی راس نہ آئی، تو مسلم لیگ کے پاس بہت بڑی رضا کار فورس موجود ہے، جو عوام کو دھول دھپوں سے قائل کرکے، قائداعظم ثانی کے حق میں نعرے لگائے گی“۔
مرے کو مارے اسحاق ڈار، بچوں کو نصیحت کی تھی کہ آئس کریم گھروں میں چھپ کرکھائیں:نذیر ناجی
7
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں