اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹیفکیشن کالعدم اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی درست قرار دے دی۔منگل کو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کیس کی سماعت کی، وکیل چیئرمین پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور اعوان اور ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم عدالت میں پیش ہوئی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جیل ٹرائل کے لیے جج کو سب سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے، ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل کے لیے جج کی مرضی لازمی ہے، متعلقہ جج ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا کمشنر آفس کے ذریعے متعلقہ وزارت کو آگاہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متعلقہ جج کو اپنا مائنڈ کلیئر کرکے وجوہات بتانی ہوتی ہیں، ہائی کورٹ رولز کے مطابق جیل ٹرائل ان تمام پروسیس سے گزرتا ہے۔انہوں نے دلائل دیے کہ جیل ٹرائل کے لیے پہلا فیصلہ ٹرائل کورٹ کے جج کا ہونا چاہیے، ٹرائل کورٹ کے جج کا خط فیصلہ یا حکمنامہ نہیں ہے، جج فیصلے کے ذریعے اپنا مائنڈ استعمال کرتا ہے، جیل ٹرائل کے لیے پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، مزید کہا کہ وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دیگر وزرائے اعظم کے خلاف اوپن ٹرائل اور میرے مکل کے خلاف جیل ٹرائل کیوں ہو رہا ہے؟سلمان اکرم راجا نے کہا کہ 29 اگست کے دستاویزات میں کچھ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیوں جیل ٹرائل کیا جارہا ہے؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ پراسیس کا آغاز ٹرائل جج نے کیا تو آگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ جیل ٹرائل کے لیے منظوری وفاقی کابینہ نے دینا ہوتی ہے مگر اس کیس میں 12 نومبر سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود نہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ کیا اب تک کوئی جوڈیشل آرڈر پاس ہوا؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ رولز کے مطابق آج تک کوئی جوڈیشل آرڈر نہیں آیا۔انہوں نے کہا کہ 16 اگست کو ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی، اس کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا، میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسیکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسیکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔
انہوںنے کہاکہ مان بھی لیا جائے کہ 12 نومبر سے کابینہ کی منظوری کے لیے طریقہ کار پر عمل کیا گیا تو پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہوجائے گی۔سلمان اکرم راجا نے 8 نومبر کا جج ابوالحسنات ذوالقرنین کا خط پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ نومبر کے خط کو دیکھتے ہوئے پوزیشن مزید واضح ہو جاتی ہے، جج نے خط میں کہا کہ کیس کا جیل ٹرائل جاری ہے جبکہ 12 نومبر کو کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی، کابینہ کی منظوری کا خط اس وقت لکھا گیا جب انٹراکورٹ اپیل زیر سماعت تھی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 12 نومبر کو کابینہ ڈویژن نے سمری تیار کی اور 13 نومبر کو جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ 13 نومبر کا نوٹی فکیشن قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا ؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جج نے خط میں جیل ٹرائل کی منظوری کا ماضی سے اطلاق نہیں مانگا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ 8 نومبر کے خط میں جج صاحب نے ماضی کی کارروائی کا ذکر نہیں کیا، جو چیز مانگی ہی نہیں گئی، کابینہ اس کی منظوری کیسے دے سکتی ہے؟جسٹس میان گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 13 نومبر کا نوٹی فکیشن قانونی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ آرٹیکل 352 کے تحت ماضی کی کارروائی پر 13 نومبر کے نوٹی فکیشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 13 نومبر کا نوٹی فکیشن قانونی ضروریات کو پورا کرتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا، کابینہ کی منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیر ہے، کابینہ منظوری کے لیے جوڈیشل آرڈر بنیادی چیز ہے، جو موجود ہی نہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم نے گزشتہ روز رجسٹرار ہائی کورٹ سے 2 سوالات پوچھے تھے، رجسٹرار نے عدالت بتایا کہ جج کی تعیناتی کے پراسیس کا آغاز اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیا، یہ بھی بتایا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے جیل سماعت سے پہلے ہائی کورٹ کو آگاہ بھی کیاسلمان اکرم راجا نے دلیل دی کہ اب تک جیل ٹرائل سے متعلق تمام نوٹی فکیشنز غیر قانونی تھے، اگر آگے جیل ٹرائل کرنا چاہتے ہیں تو قانونی طریقے سے ٹھوس وجوہات کے ساتھ آنا ہوگا۔
انہوںنے کہاکہ 15 نومبر کے لیے کوئی درخواست اور نہ ہی کوئی جوڈیشل آرڈر ہے، جیل ٹرائل کے لیے جاری نوٹی فکیشنز میں قانون کو فالو نہیں کیا گیا، لہذا جیل ٹرائل غیر قانونی قرار دیا جائے۔اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل عام لوگوں کو سننے کے لیے نہیں، درخواست گزار گرفتاری کے وقت جیل میں تھے تو جسمانی ریمانڈ نہیں لیا گیا۔انہوںنے کہاکہ قانونِ شہادت میں جو چیزیں موجود ہیں اگر وہ نہ ہو رہا ہوں تو پھر کہیں کہ انصاف نہیں مل رہا، قانون کے مطابق چارج فریم ملزم کی موجودگی میں عائد ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس میں فرد جرم کے دوران ملزم وہاں موجود تھا، اڈیالہ جیل میں ایک بڑے ہال میں سائفر کیس کی سماعت ہو رہی ہے، سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ملزم کے خلاف جیل ٹرائل چل رہا ہے۔بعد ازاں ہائی کورٹ جیل ٹرائل کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا 29 اگست کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جا سکتا ہے، قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یاان کیمرا ہوسکتا ہے۔فیصلے میں قرار دیا گیا کہ 13نومبرکو کابینہ منظوری کے بعدجیل ٹرائل نوٹیفکیشن کاماضی پراطلاق نہیں ہوگا۔عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف بھی فیصلہ جاری کیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی درست قرار دے دی۔