اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کے تازہ ترین انٹرویو پر بی بی سی اردو نے ایک دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ایک مقامی ٹی وی چینل پر وزیرِ اعظم عمران خان کا ایک حالیہ انٹرویو سوشل میڈیا اور عام گفتگو میں بھی زیر بحث ہے۔وزیراعظم عمران خان کا یہ انٹرویو جو انہوں نے صحافی چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر کو دیا
اور یہ اے آر وائی نیوز پر گذشتہ روز نشر کیا گیا۔پاکستان کے وزیراعظم حال ہی میں کچھ نیوز چینلز پر مخصوص اینکرز کو انٹرویو دیتے نظر آ رہے ہیں۔ ان میں وہ مختلف معاملات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور وزیراعظم کے جوابوں کے مختلف کلپس نکال کر اُن کے حامی و مخالفین سبھی ان ویڈیوز کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔حالیہ انٹرویو میں صحافی چوہدری غلام حسین کی طرف سے پوچھے گئے سوالات سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔اس انٹرویو کا ایک کلپ جو سب سے زیادہ وائرل ہوا اس میں چوہدری غلام حسین نے ایک سوال پوچھنے سے قبل کم از کم ڈیڑھ منٹ تک عمران خان کی تعریف کی۔ تعریف کرنے کے بعد انہوں نے مہنگائی کے اوپر ایک سوال پوچھا اور اس دوران عمران خان پورے تحمل کے ساتھ سنتے رہے کہ چوہدری غلام حسین کیا کہہ رہے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس انٹرویو پر پاکستان کے مختلف صحافیوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔کسی نے اسے خوشامد قرار دیا تو کسی نے کہا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے عمران خان دونوں صحافیوں کا انٹرویو لے رہے ہیں۔سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹ پر صحافی مرتضیٰ علی شاہ نے کہا کہ اینکر وزیر اعظم عمران خان کو اُن کی حکومت کی کامیابیاں اور ان کی ڈالی گئی مضبوط بنیادوں کے بارے میں بتا رہے ہیں۔صحافی نذرالاسلام کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کون سے چینل میں
شمولیت اختیار کر لی ہے کیونکہ لگتا ہے کہ وہ چوہدری غلام حسین کا انٹرویو لے رہے ہیں۔دی نیوز اخبار کے سینئر ایڈیٹر طلعت اسلم کا کہنا تھا کہ اگلی مرتبہ جب کسی مستند صحافی کو تبدیلی پسندوں نے ٹرول کیا اور انھیں القابات سے نوازا، تو وہ صحافت کے ان دو روشن میناروں کا نام لیں گے۔جن کی سرپرستی ان کے باس عمران خان کرتے ہیں، صابر شاکر اور چوہدری غلام حسین۔
صحافی علینہ شِگری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری غلام حسین اس طرح کے دور میں (عمران خان کی) حکومت کی تعریف کرنے پر کھڑے ہو کر تالیوں کے مستحق ہیں۔وہ نادیہ نقی نامی صارف کو جواب دے رہی تھیں جو پوچھنا چاہتی تھیں کہ وہ آخر کہہ کیا رہے ہیں۔اس موقع پر ایک صارف سمیع الحق نے پوچھا کہ سر سچ بتائیں، آپ انٹرویو لے رہے تھے
یا آپ کا انٹرویو لیا جا رہا تھا۔سر سچ بتائیں، آپ انٹرویو لے رہے تھے یا دے رہے تھے؟انگریزی جریدے دی ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر محمد ضیاالدین کا کہنا تھا کہ ایسے انٹرویوز نہ صرف اس شخص کے لیے
نقصان دہ ہوتے ہیں جس کا انٹرویو کیا جا رہا ہے بلکہ اس سے صحافت کے پیشے کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔غرض اس انٹرویو پر بعض صارفین نے کھل کر تنقید کی اور بعض نے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعویٰ کیا۔