اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے تفصیلی فیصلے میں اضافی نوٹ تحریر کیا اور کہا ہے کہ صدر کو ایگزیکٹو کسی معاملے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ جمعہ کو سپریم کورٹ نے چار ماہ بعد جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔سات ججز
کا 173 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جبکہ جسٹس فیصل عرب نے اضافی نوٹ لکھا ہے اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے میں 22 صفحات پر مشتمل اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ ریفرنس ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعظم کو یہ تجویز کیا گیا کہ وہ صدر مملکت کو ریفرنس دائر کرنے کی منظوری کیلئے ایڈوائس بھیجیں، صدر مملکت نے سمری پر صرف دستخط کیے، اس میں ان کی اپنی رائے شامل نہیں تھی۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ ایگزیکٹو کا کام ہے کہ وہ ایسی صورت میں صدر مملکت کو آگاہ کر کے تجویز کرے مگر صدر مملکت کا کام ہے کہ وہ ان تمام ثبوتوں اور معاملات کا جائزہ لیں، اس پر رائے لیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ ایگزیکٹو کی جانب سے ان کو بھیجی گئی سمری قابل عمل ہے یا نہیں کیونکہ ایگزیکٹو صدر مملکت کو کسی معاملے پر مجبور نہیں کر سکتی۔جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکلاء برادری میں انتہائی احترام ہے، جب ان کے مالی معاملات پرسوال اٹھا تویہ انتہائی لازمی تھا کہ وہ اپنی لندن جائیدادوں کو ظاہر کرکے اپنے اوپر لگے داغ کو دھوئیں۔انہوں نے کہا کہ بہترہوتا کہ معاملے کو تحقیقات کراکے حتمی انجام تک پہنچایا جاتا تاکہ الزام کو غلط ثابت کیا جاتا تاکہ عوامی سطح پر شکوک و شبہات کو
ختم کیا جا سکتا، جج قانون سے بالاتر نہیں اور آئین کا محافظ ہے۔جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ اگر آئین کے آرٹیکل 209 کو کسی بھی وجہ سے غیر فعال کیاگیا تو یہ آرٹیکل جن لوگوں کیلئے بنایا گیا تھا، یہ ان کیلئے مردہ ہوگیا، قانون کی نظر میں صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں۔