میانوالی ( آن لائن) یونیورسٹی آف میانوالی کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یونیورسٹی آف میانوالی بھی سیاست کی نذر ہوگئی ہے ، وزیراعظم کے آبائی حلقہ میں پی ٹی آئی کے منتخب نمائندے من مانیاں کرنے لگے، سیاسی اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ریٹائرڈشخص کو یونیورسٹی آف میانوالی کارجسٹرار متعین کروایا۔
ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے اسسٹنٹ پروفیسر کو ایسوسی ایٹ پروفیسر شو کرکے یونیورسٹی آف میانوالی کا کنٹرولر امتحانات بنوایا جبکہ یونیورسٹی میں گریڈ 20کے پروفیسر موجود ہیں اسی وجہ سے اصل ایشوز سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اچھی شہرت کے حامل پروفیسرکیخلاف سوشل میڈیا پر جعلی اکائوٹنس کے ذریعے غلیظ مہم شروع کرائی گئی اوران کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کو شش کی جارہی ہے تاکہ مافیا کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں ، فرض شناس اور نیک نامی والے اساتذہ و افسران بے بنیاد بہتان تراشی سے تنگ آگئے ہیں اور اپنی ٹرانسفر کی کوششوں کیساتھ انہوں نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، گورنر پنجاب اور ایف آئی اے سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کردیا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یونیورسٹی بنے ایک سال مکمل ہونے کے قریب ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ اساتذہ اور دیگر متعلقہ سٹاف کی بھرتی میں ناکام رہی ہے جس کے باعث میانوالی یونیورسٹی کے مستقبل پر سوالیہ نشان بن گیا ہے؟ اور ڈیپاٹمنٹ آف ذو آلوجی کیلئے مسائل پیدا کرنے والے ذمہ داران اس ڈیپارٹمنٹ کے وزٹنگ اساتذہ کے سابقہ دو سمسٹر زکی اجرت کی ادائیگی میں حائل ہیں ، سیاسی شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اساتذہ کی معاشی استحصال کا سد باب کریں۔
سوشل میڈیا پر فضو ل باتوں کی بجائے یونیورسٹی آف میانوالی کی ترقی، فلاح و بہبود کی کامیابی کیلئے کام کریں۔پاور فل مافیا کا اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے و نفرت و شر انگیز بہتان تراشی کے واقعات کا مقصد اصل مسائل سے توجہ ہٹانا مقصود ہے۔ تحقیقات سے یہ پتہ چلا کہ 2016ئ سے 2020ئ تک تمام سیشنز میں سیدہ زہرا بتول جو اپنے آپ کوذوآلوجی ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف میانوالی کی ایک طالبہ ظاہر کرتی ہے اس نام کی کوئی طالبہ ذوالوجی ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف میانوالی میں زیرتعلیم نہیں ہے۔
ایک فرضی طالبہ کا فیک ٹوئٹر آئی ڈی پر کئے جانے والے انکشافا ت اور الزام و بہتان تراشی اتنے ہی حقیقت پر مبنی ہیں جتنا کہ اس فرضی طالبہ کا فیک ٹویٹر اکائونٹ جس کے لئے اداروں بالخصوص ایف آئی اے کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انوسٹی گیشن کے بعد حقائق و سچ کھل کر سامنے آجائے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے اور اس سازش کے پیچھے پس پردہ محرکات بھی سامنے آجائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یونیورسٹی آف میانوالی کے دشمن خود مقامی پولیٹکل لوگ ہی بن چکے ہیں اگر ذاتی مفادات کی خاطر اگر اس قسم کا ماحول یونیورسٹی میں بنائیں گے تو مستقبل میں کوئی شریف النفس، لائق اور فرض شناس پروفیسراپنی عزتوں کو تار تار کرانے سے محفوظ رکھنے کیلئے میانوالی آنے سے کترائے گا جس کا تما م تر نقصان یونیورسٹی آف میانوالی اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے ذہین طلبا و طالبات کا ہوگا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یونیورسٹی آف سرگودھا سے آن ڈیپوٹیشن یونیور سٹی آف میانوالی میں تعینات پروفیسر ،لیکچرارو دیگر عملہ فرسودہ اور فاسد نظام و ماحول سے دل برداشتہ ہو کر سرگودھا یونیورسٹی جانے کیلئے کوشاں ہیں اگر ایسا ہو گیا تو میانوالی یونیورسٹی کے مستقبل مزید خطرہ میں پڑ جائیگا۔ رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پر عوام حقیقت سے بے خبر ایک من گھڑت خود ساختہ سٹوری جس کا حقیقت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے پر بعض جذباتی افراد سچ جانے سمجھے بغیر اس قسم کے نفرت انگیز مواد پر کیسے یقین کرلیتے ہیں ؟
جبکہ15مارچ 2020سے اب تک تقریباً6ماہ سے کورونا وائرس کے باعث ملک بھر کی طرح یونیورسٹی آف میانوالی بھی طلبا ء ، طالبات او ر اساتذہ کیلئے بند ہے جس کے باعث یونیورسٹی آف میانوالی میں آن لائن کلاسز کا اجرا کیا گیا ہے جو کامیابی سے جاری ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ منصوبہ بندی کے ساتھ چلائی جانے والی مہم اور طوفان بدتمیزی پاکستان کی سوشل میڈیا میں سر عام دکھائی دیتی ہے جو معاشرے کیلئے خطرناک اور قابل مذمت ہے جس کی روک تھا م کیلئے ذمہ داران کو سنجیدہ و ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔