باد (آن لائن)سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب کے تعیناتیوں کے اختیار کا نوٹس لے لیا ہے۔سپریم کورٹ نے یہ نوٹس نیب کے ایک ملزم کے ضمانت کے مقدمے کے تحریری فیصلے میں لیا۔سپریم کورٹ کے حکمنامے میں قرار دیا گیا ہے کہ چیئرمین نیب تعیناتیوں کا اختیار رولز کے تحت ہی استعمال کر سکتے، نیب آرڈیننس کے تحت 1999 سے آج تک رولز نہیں بن سکے،
کیا چیئرمین نیب آئین کے آرٹیکلز 240 اور 242 کو بالائے طاق رکھ سکتے ہیں؟عدالت نے معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا ہے. جبکہ خود کو ڈی جی نیب عرفان منگی ظاہر کرنے والے ملزم ندیم احمد کی ضمانت منظور کرلی گئی ہے. عدالتی حکمنامہ میں رجسٹرار آفس کو ازخودنوٹس الگ سے سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔واضح رہے سپریم کورٹ نے شریف خاندان کیخلاف بننے والی پاناما جے آئی ٹی میں شامل ایک چمکتے ہیرے ڈی جی نیب رالپنڈی عرفان نعیم منگی کی اہلیت اور تقرری پر بھی سنگین سوالات اٹھا رکھے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ضمانت کے مقدمے میں ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی سے مکالمے میں پوچھا تھا آپ کی تعلیم اور تنخواہ کیاہے؟؟۔عرفان منگی کا کہنا تھا میں انجینئرہوں،میری تنخواہ چار لاکھ بیس ہزار روپے ماہانہ ہے،میرا فوجداری مقدمات کاکوئی تجربہ نہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایک انجینئر نیب کے اتنے بڑے عہدے پر کیسے بیٹھا ہوا ہے؟ عرفان منگی کس کی سفارش پر نیب میں گھس آئے، مارشل لا میں قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں،ہمیں اللہ سے زیادہ ایک ڈکٹیٹر کا خوف ہوتا ہے،مارشل لا ئ سے بہتر ہے دوبارہ انگریزوں کو حکومت دے دی جائے۔حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ ‘فوجی آمر پرویز مشرف نے 1999 میں نیب قانون میں چیئرمین نیب کو تعیناتی کا اختیار دیا تھا۔ نیب قانون کی شق 28 جی کے مطابق چیئرمین نیب پبلک سروس کمیشن کی رائے کے بغیر کسی کو بھی تعینات کر سکتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 21 سال گزرنے کے باوجود آجتک کسی سویلین حکومت نے بھی اس قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔