اسلام آباد (آن لائن) اعلی عدلیہ کے ججز کی توہین اور جسٹس فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیوں کے کیس کی سماعت،عدالت عظمیٰ نے داخل کرائے گئے تحریری جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ئے کہا ہے کہ محکمے تاحال معاملے کو سیریس نہیں لے رہے۔
تحقیقاتی رپورٹ میں بھی کوئی ٹھوس چیز موجود نہیں۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت افتخار الدین مرزا نے عدالت عظمیٰ سے اپنے بیان پر معافی مانگتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ میں اپنے وڈیو بیان پر تہہ دل سے معذرت خواہ ہوں،میں انتہائی شرمندہ ہوں قانون کے علاوہ بطور مسلمان بھی آپ سے معافی چاہتا ہوں، اللہ کی عدالت ہے مجھے وہاں بھی جواب دینا ہے،مجھے ویڈیو کی اپلوڈنگ اور ایڈیٹنگ کا علم نہیں، چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ یہ معافی والا کیس نہیں ہے، آپ عدالت سے مذاق نہیں کر سکتے، اس طرح تو پاکستان کا سارا نظام فیل ہو جائے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ مسجد کے منبر پر وہ زبان استعمال کر رہے تھے جو کوئی جاہل آدمی بھی نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ نے ملزم افتخار الدین پر فرد جرم عائد کر دی اور تحریری جواب کیلئے ایک ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کر دی۔