اسلام آباد ( آن لائن ) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کورونا وائرس کی صورتحال اور ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار کی بندش کی وجہ سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کورونا وبا کے باعث عائد کردہ موجودہ پابندیوں کا 9 مئی تک اطلاق رہے گا، اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان کے
زیر صدارت اجلاس ہوگا جس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا اتنا زیادہ نہیں جتنا شورمچایا جا رہا ہے،معاشی بندشیں زیادہ مہلک ہیں، کورونا وائرس سے 10لاکھ آبادی میں اموات کی شرح 2 فیصد ہے، جبکہ ہر 4 افراد میں ایک شخص بھوک سے متاثر ہورہا ہے، مزید لاک ڈاؤن نہ کرنے کا فیصلہ 9 مئی سے پہلے کرلیں گے۔ قومی رابطہ کمیٹی 9 مئی کے بعد کی حکمت عملی سے متعلق فیصلہ کرے گی۔اسد عمر نے کہا گزشتہ چند دنوں میں کورونا وائرس سے اموات میں اضافہ ہوا جو اچھی خبر نہیں، ہلاکتوں کی سرخ لکیر عبور ہو چکی ہے اور روزانہ 24 اموات ہو رہی ہیں لیکن اآبادی کے تناسب کے حساب سے پاکستان میں یہ شرح کم ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پاکستان میں بیماری اتنی مہلک ثابت نہیں ہوئی جتنی یورپ میں ہوئی، پاکستان کے مقابلے میں امریکا میں 58 گنا اور برطانیہ میں 124 گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کورونا سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ٹریفک کو اجازت دیتے ہیں، اگر یہ ذہن میں بیٹھا لیں کہ کورونا سے اموات کو صفر کرنا ہے تو اس کے لیے ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جو انسانوں کے لیے اتنے زیادہ مہلک ہوں گے جو کوئی برداشت نہیں کر سکتا، پاکستان میں ایک ماہ میں اوسطا 4 ہزار 800 سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں، لیکن ہم ٹریفک کو پھر بھی اجازت دیتے ہیں اور گاڑی سڑک پر چلتی ہے، کیونکہ ٹریفک پر پابندی زیادہ نقصان دہ ہے۔اسد عمر نے کہا کہ یہ
بیماری دنیا میں جتنی مہلک ہے اتنی ہمارے ہاں نہیں، لیکن معاشی نقصان زیادہ ہے۔ لاک ڈاؤن سے معاشی طور پر حکومت کو آمدنی میں 119 ارب روپے کا نقصان ہوا، روزگار میں بڑے پیمانے پر کمی آئی۔انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بے روزگار جبکہ 10 لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لیے بند ہو سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ کے لیے ملک بند کرکے بیٹھ نہیں سکتے۔ ہمارا ہدف صحت کے نظام کو مضبوط کرنا ہے۔ ہم آہستہ آہستہ بندشیں کم کریں گے اور روزگار کے مواقع بڑھائیں گے۔