اسلام آباد ( آن لائن ) شوگر کمیشن میں شوگر مل مالکان کیلئے جاسوسی کرنے والے ایف آئی اے کے معطل ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد مصطفی باجوہ کے بارے میں معلوم ہواہے کہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1989ء میں اسے سیاسی بنیادوں پر ایڈہاک ازم کے تحت اسسٹنٹ ڈائریکٹربھرتی کیا تھا ۔ قومی مفادات سے غداری کرنیوالے معطل ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد مصطفی کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے اس نوکری کیلئے نااہل قرار دیا لیکن سفارش پر ملزم ایف آئی اے میں موجود رہا ۔
بعد ازاں عدالت عظمی نے جن 23 ایف آئی اے افسران کی تقرری اور انضمام کو خلاف قانون قرار دیا ان میں سجاد مصطفی باجوہ بھی شامل تھا لیکن اپنے افسران کی پشت پناہی کے باعث یہ تمام افسران ایف آئی اے میں موجود رہے اور ترقیاں بھی حاصل کرتے رہے ،سجاد مصطفی باجوہ ایف آئی اے سر کل کے افسران میں ایک ایسے جادوگر آفیسر کی شہرت رکھتا ہے جو کسی بھی افسر کو اپنی خوشامد کے ذریعے شیشے میں اتارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ وفاقی حکومت نے معطل ایڈیشنل ڈائریکٹر کیخلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کیلئے بھی رائے مانگ لی ۔ وزیراعظم نے قومی مفادات سے غداری کرنیوالے سجاد مصطفی باجوہ کو باقی افسران کیلئے عبرت کا نشان بنانے کا عندیہ دیدیا کرپشن کیخلاف نبرد آزما وزیراعظم عمران خان کیلئے چینی اسکینڈل کے مرکزی کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے بڑا چیلنج یہ بھی بن چکا ہے کہ سرکاری دستاویزات کو لیک کرکے نوکری میں ترقی اور مالی مفادات حاصل کرنے والے سرکاری غداروں کیخلاف کیسے نمٹا جائے اور مافیاز کی سرکاری دستاویزات تک رسائی کو کیسے ناممکن بنایا جائے ۔ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی طرف سے وزیراعظم کو بھجوائی گئی سفارشات میں بتایا گیا ہے کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد مصطفی باجوہ شوگر ملز مالکان کیلئے مخبری کرنے والے آفیسر تھے اور ان کیخلاف ثبوت ملنے کے بعد انہیں معطل کرکے محکمانہ کارروائی کا آغاز کردیاگیا ہے ۔
تاہم وزیراعظم سیکرٹریٹ اس حوالے سے ملزم کیخلاف محکمانہ کارروائی کو نہ کافی سمجھتا ہے اور قومی دستاویزات لیک کرنے کے جرم میں سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی پر بھی مشاورت کی جارہی ہے جبکہ ایف آئی اے کے معتبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ملزم کیخلاف فوجداری ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے ۔ مصدقہ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ شوگر مافیا کیلئے خدمات سرانجام دینے والے سجاد مصطفی باجوہ کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1989 میں ایڈہاک اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی کیا تھا اور اس کی مدت ملازمت کا ابتدائی دورانیہ چھ ماہ مقرر کیا گیا تھا ۔
لیکن بعدازاں سیاسی بنیادوں پر اس میں اضافہ کردیاگیا لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے اپنے ٹیسٹ میں سجاد مصطفی باجوہ کو ملازمت کیلئے نااہل قرار دیدیا مگر سیاسی اثرورسوخ کے بل بوتے پر ملزم نے اپنی نااہلی کو سرد خانے کی نذر کروا کر ملازمت جاری رکھی بعدازاں یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو عدالت عظمیٰ نے سجاد مصطفی باجوہ سمیت 23 افسران کی تقرری اور انضمام کو کالعدم قرار دیا لیکن ایک بار پھر ملزمان کی پشت پناہی افسران نے کی اور یہ لوگ ایف آئی اے میں ترقی کی منازل طے کرتے رہے ۔ملزم سجاد مصطفی باجوہ نے ہر دور میں ڈی جی ایف آئی اے کو اپنی خوشامد کے جال میں پھنسایا اور ساتھ ہی سیاسی سفارش پر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سائبر کرائم ونگ میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر تقرری حاصل کرلی۔
سجاد مصطفی باجوہ نے ڈی جی اور اپنے اعلیٰ افسران کے سامنے خود کو محکمے کا ایماندار ترین آفیسر نہ صرف ظاہر کیا بلکہ اس جھوٹ پر ان کا یقین اس قدر پختہ کردیا کہ اسے چینی سکینڈل کی ایک انکوائری کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیاگیا اور خود کو ایماندار ظاہر کرنے والے سجاد مصطفی باجوہ نے قومی مفادات کے سارے راز چینی مافیا کو دیکر اپنی وفاداری کا یقین دلایا اور ساتھ ہی مبینہ طور پر مالی فوائد بھی حاصل کئے ۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق ملزم کے اثاثوں بارے بھی جانچ پڑتال شروع کردی گئی ہے اورملزم کی نوکری سے متعلق مکمل فائل بھی وزیراعظم سیکرٹریٹ کو بھجوادی گئی ہے ۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے قومی مفادات پر سودے بازی کرنے والے اس جاسوس آفیسر کو دیگر افسران کیلئے عبرت کا نشان بنانے کا عندیہ دیا ہے جبکہ اس کو بچانے کیلئے سیاسی مافیا بھی میدان میں کود چکا ہے ۔