اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) گورنر سٹیٹ بینک بھاگنے کے چکر میں ہیں۔تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میںسینئر صحافی وتجزیہ کار ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے بتاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ، اس کا حال یمن اور ایتھوپیا جیسے ممالک کی طرح ہو چکا لیکن عوام کو پریشان ہونے کی بجائے صبر کرے آئندہ چند ماہ میں
ملکی معیشت میں بہتری آئے گیگورسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ دنیا میں ایسے ملک نہیں چلتا ۔ان کے دیئے گئے بیانیہ سے یہی لگتا ہے کہ وہ بھاگنے کے چکر میں ہیں ۔ واضح رہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے بیان دیا تھا کہ پاکستان کم ترین ایکسپورٹ کے ساتھ افغانستان، یمن، سوڈان، جنوبی سوڈان اور ایتھوپیا کے ساتھ کھڑا ہے اور ملک ایسے نہیں چلا کرتے،پہلے جو لوگ ڈیفالٹ کی باتیں کر رہے تھے اب وہ خاموش ہیں، کچھ عرصے قبل تک ہمارے معاشی اشاریوں کی صورتِ حال اچھی نہیں تھی، ایک سال پہلے کی صورتِ حال اور اب میں بہت فرق آ چکا ہے۔ جمعرات کو یہاں سی ای او سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا کہ لوگ شرحِ سود اور ایکسچینج ریٹ پر بغیر پڑھے تبصرہ کرتے ہیں،ہماری ویب سائٹ پر مانیٹری پالیسی اسٹیٹمنٹ ہے جسے پڑھ لینا چاہیے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ اب ایکسچینج ریٹ مستحکم اور زرِ مبادلہ ذخائر تسلی بخش سطح پر ہیں، معاشی بہتری قلیل مدتی نہیں طویل مدتی پراسس ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو یہ بات جاننا ہوتی ہے کہ ایکسچینج ریٹ اور پالیسی ریٹ کیا ہو گا، پالیسی ریٹ کا تعین اسٹیٹ بینک کی کمیٹی کرتی ہے۔رضا باقرنے کہاکہ ہمیں پائیدار ترقی کے لیے اپنا مزاج بدلنا ہو گا، ہماری برآمدات کا جی ڈی پی سے تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک اس شرح سے نہیں چل سکتا، کئی غریب ترین ممالک کی یہ شرح پاکستان سے بہتر ہے۔گورنراسٹیٹ بینک نے کہاکہ آج پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ترقی کررہی ہے،
اسٹیٹ بینک مستقبل کے لیے پرامید ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ اورمالیاتی خسارے کا بڑی خوش اسلوبی سے انتظام کیا گیا، ایک برآمدی یونٹ کے لیے قرضہ کی حد بھی دگنی کردی گئی، اسٹیٹ بینک ملک میں مالیاتی خدمات کا دائرہ وسیع کررہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایس ایم ایز کوسستے قرضے فراہم کیے جارہے ہیں، 500 ارب روپے کے قرضہ ایس ایم ایز کو جاری کیے جائیں گے تاہم یہ حجم ابھرتی ہوئی
معیشتوں کے تناسب میں کافی کم ہے۔ ایس ایم ایز دستاویزی شکل اختیار کرکے قرضوں کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں، ایس ایم ایز متوازی نظام سے قرضہ لیتی ہیں جو مہنگا ہوتا ہے، چیمبر آف کامرس ایس ایم ایز کے لیے قرضوں کی اسکیموں کی ترویج کریں، بینکوں پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ رسک لینے کوتیارنہیں، ایس ایم ایز متحرک نہیں تو اس کا الزام بینکوں کو نہ دیا جائے۔
گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن خواتین کی نمائندگی 5 فیصد سے بھی کم ہے، ملک کی بالغ آبادی میں خواتین اکائونٹ ہولڈرزکی تعداد 15 فیصد ہے، دنیا میں یہ تناسب 55 فیصد سے زائد ہے، اسٹیٹ بینک نے خواتین انٹرپرنیورزکے لیے خصوصی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں، مشکل وقت کا سامنا ہے، آسان فیصلے کرنا ہوتے توپہلے کرلیے جاتے، معاشی ترقی کے لیے
اسٹیٹ بینک ایکسپورٹ، انکلوژن، ڈیجیٹائزیشن پر توجہ دے رہا ہے۔ چھوٹی مالیت کی ادائیگیوں کے لیے الیکٹرانک پے منٹ پلیٹ فارم کا جلد اعلان کیا جائے گا۔ سیکنڈزمیں رقوم کا لین دین مکمن ہوسکے گا جب کہ نادرا اور پی ٹی اے کی مدد سے موبائل والٹ پے منٹ کا نظام بھی تیارکررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان معاشی نمو کے لیے اپنا کردار بخوبی انجام دے رہا ہے، جی ڈی پی میں
ایکسپورٹ کا تناسب 10 فیصد سے بھی کم ہے، یہ تناسب عالمی تناسب سے کافی کم ہے، برآمدات میں پائیداراضافہ کے لیے اسٹیٹ بینک سہولتیں فراہم کررہا ہے۔رضاباقر نے کہاکہ معاشی نمو کے لیے ایکسپورٹ میں اضافہ ناگزیرہے ۔ پاکستان کم ترین ایکسپورٹ کے ساتھ افغانستان، یمن، سوڈان، جنوبی سوڈان اور ایتھوپیا کے ساتھ کھڑا ہے، ایسے ملک نہیں چلا کرتے، ہماری ایکسپورث دگنی ہونی چاہیے تھی،
ہمیں اپنی پیداوار کو بڑھانے اور جدت لانے پر توجہ دینا ہوگی، مارکیٹ پر مبنی ایکس چینج ریٹ سے ایکسپورٹ کو فائدہ ہوا، برآمدات کے لیے بین الاقوامی قیمت کسی کے اختیار میں نہیں ہوتی ، ابھرتی ہوئی معیشتوں کی دنیا میں ایکسپورٹ کمی کا شکار ہیں، پہلی ششماہی میں برآمدات کی مالیت میں 4.5 فیصد اضافہ ہوا جب کہ اسی عرصے میں بھارت، تھائی لینڈ، سری لنکا، انڈونیشیا،
ملائشیا اور بنگلا دیش کی برآمدات گررہی تھیں ۔گورنراسٹیٹ بینک نے کہا اس حوالے سے اسٹیٹ بینک برآمدات بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے، برآمد کنندگان کو طویل مدت کے لیے 5 سے 6 فیصد کی شرح پر ری فنانسنگ کی سہولت دی جارہی ہے، برآمدی قرضوں کی اسکیموں کے لیے 100/100 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔ برآمدی قرضوں کا دائرہ کارروایتی شعبوں تک ہی محدود نہیں رکھا، اب کوئی بھی شعبہ برآمدات کے لیے قرضہ لے سکتا ہے۔