دنیا کے بڑے معاشی دماغ کہتے ہیں انسان کمانے سے امیر نہیں ہوتا‘ مسلسل کمانے‘مسلسل کماتے رہنے سے امیر ہوتا ہے بالکل اسی طرح آپ ایک بار صفائی کرنے‘ ایک بار صاف ستھرے ہونے سے پاک صاف نہیں ہو جاتے‘ صاف ہونے کے لیے مسلسل صفائی ضروری ہوتی ہے لیکن ہم کراچی کے معاملے میں یہ حقیقت بھول جاتے ہیں‘ ہم شہر کو ایک بار چمکا کر‘
اس کا کچرا ایک بار صاف کر کے کہہ دیتے ہیں لیجیے ہم نے شہر صاف کر دیا‘ کراچی یوں صاف نہیں ہوگا‘آپ ایک سائیڈ کا کچرا اٹھا کر دوسری سائیڈ پر پھینک کر کراچی کو صاف ڈکلیئر نہیں کر سکیں گے۔ اس کے لیے آپ کو مسلسل صفائی اور صفائی کا مستقل بندوبست کرنا پڑے گا مگر بدقسمتی سے کراچی ایک ایسا بدقسمت شہر ہے جس میں گندگی تیسرے فیز میں داخل ہو چکی ہے‘ پورے شہر کو مکھیوں نے نرغے میں لے لیا ہے‘ یہ دنیا کا واحد ساحلی شہر بن چکا ہے جس میں اربوں کی تعداد میں مکھیاں ہیں اور یہ مکھیاں شہر کو ”ٹیک اوور“ کر چکی ہیں بس کسی دن کوئی وبا پھوٹنے کی دیر ہے اور یہ شہر المیہ بن جائے گا‘ آپ بدانتظامی کی انتہا دیکھیے کراچی کی صفائی میں وفاقی‘ صوبائی اور بلدیاتی تینوں حکومتیں ناکام ہو چکی ہیں‘ یہ تینوں ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں، کراچی آخر کس کی ذمہ داری ہے، مولانا فضل الرحمن نے اکتوبر میں اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے خود کو اس لاک ڈاؤن سے الگ کر لیا، اب ن لیگ بچی ہے‘ اگر ن لیگ بھی پیچھے ہٹ جاتی ہے تو کیا مولانا فضل الرحمن پھربھی لاک ڈاؤن کریں گے؟