اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کرائے پر لی ہوئی بندوق نہیں، اب ہم وہ کریں گے جو ہمارے مفاد میں بہتر ہوگا،ٹرمپ کو ٹوئٹر پر جواب دینے کا مقصد ریکارڈ درست کرنا تھا،اگر آپ امریکا کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ امریکا کے خلاف ہیں،اگر ہم امریکی جنگ میں نہ پڑتے تو خود کو تباہی سے بچا سکتے تھے،
ہم نے امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے زیادہ نقصان اٹھایا ہے، چین کے ساتھ ہمارے یکطرفہ تعلقات نہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں، ہم اسی طرح کے تعلقات امریکا سے بھی چاہتے ہیں، پاکستان میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں،افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے جس کے لیے ہم بھرپور تعاون کریں گے، کہ افغانستان کا 40 فیصد حصہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ امریکی اخبار وواشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکا کی جنگ لڑتے ہوئے بہت زیادہ نقصان اٹھایا تاہم اب پاکستان امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر باقاعدہ تعلقات چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکا سے ایسے تعلقات کبھی نہیں چاہیں گے جس میں پیسے دے کر جنگ لڑنے یا پاکستان کے ساتھ خریدی گئی بندوق جیسا برتا ئو کیا جائے، ہم خود کو دوبارہ اس پوزیشن میں نہیں ڈالیں گے، اس سے انسانی جانوں کا ضیاع، ہمارے قبائلی علاقوں کی تباہی اور ہمارا وقار مجروح ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ باقاعدہ تعلقات چاہتے ہیں، چین کے ساتھ ہمارے یکطرفہ تعلقات نہیں، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات بھی ہیں اور ہم اسی طرح کے تعلقات امریکا سے بھی چاہتے ہیں۔وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ آپ امریکا کے بہت مخالف ہیں جس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا اگر آپ امریکا کی پالیسیوں سے
اتفاق نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ امریکا کے خلاف ہیں، یہ سامراجی سوچ ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں یا میرے خلاف۔ عمران خان نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کا الزام لگایا تھا، جب حکومت میں آیا تو سیکورٹی فورسز سے مکمل بریفنگ لی اور وقتا فوقتا امریکا سے کہا کہ بتائیں پاکستان میں پناہ گاہیں کہاں ہیں تاکہ اسے چیک کریں، پاکستان میں طالبان
کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹوئٹ اور اس پر جواب سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ٹوئٹر پر ٹرمپ کو جواب دینے کا مقصد ریکارڈ درست کرنا تھا، جواب میں لکھا تھا کہ امریکی صدر کو تاریخی حقائق پتہ ہونا چاہیے۔وزیراعظم نے واضح کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ہرزہ سرائی کا سوشل میڈیا پر جواب ٹوئٹر جنگ نہیں تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لکھے گئے خط کے سوال پر وزیراعظم نے کہا افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے جس کے لیے ہم بھرپور تعاون کریں گے، یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کا 40 فیصد حصہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔امریکی حکام کہتے ہیں پاکستان طالبان رہنما ئو ں کو پناہ دیتا ہے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا
وہ ان الزامات کو نہیں سمجھ سکے، ایسا ملک جس کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملوں سے کوئی تعلق نہیں، کوئی پاکستانی اس میں ملوث نہیں، القاعدہ افغانستان میں ہے، اس کے باوجود پاکستان کو کہا گیا امریکی جنگ کا حصہ بنیں۔وزیراعظم نے کہا پاکستان میں مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے امریکی جنگ کی مخالفت کی، اگر ہم اس جنگ میں نہ پڑتے تو خود کو تباہی سے بچا سکتے تھے،
امریکا کا اتحادی بننے کے بعد پاکستان نے 80 ہزار جانوں کو نذرانہ پیش کیا، تقریبا 150 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، نہ ہی سرمایہ کار اور نہ ٹیمیں یہاں آرہی ہیں اور پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک بھی قرار دیا گیا۔امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی اور مسئلہ کے حل کیلئے کسی نتیجے پر پہنچنے سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا وہ گزشتہ کئی سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ
افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل نہیں اور یہ بات کہنے پر انہیں طالبان خان بھی کہا گیا، اگر آپ امریکا کی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ امریکا مخالف بن جاتے ہیں۔ لیکن اب میں خوش ہوں کہ ہر کسی نے تسلیم کیا کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل ہے، ہم نہیں چاہیں گے کہ امریکا افغانستان سے جلد بازی میں نکلے جس طرح اس نے 1989 میں کیا تھا۔وزیراعظم نے کہا 1989 میں
جب سویت یونین افغانستان سے نکلا تو امریکا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا، امریکا افغانستان میں پہلے حالات ٹھیک کرے پھر تعمیر نو کے لیے بھی اس کی ضرورت ہوگی۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں 27 لاکھ افغان مہاجرین اب بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، پاک افغان سرحد کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے جہاں سے دہشت گردوں کی آمدو رفت مشکل ہے۔