ہم ماڈل پسند کرنے والی قوم ہیں‘ ہمیں کبھی چائنیز ماڈل پسند آ جاتا ہے‘ ہم کبھی پاکستان میں امام خمینی کے انقلاب کی کاشت کاری شروع کر دیتے ہیں‘ ہم کبھی ترکش ماڈل سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور ہم کبھی ملائیشین ماڈل سے بغل گیر ہو جاتے ہیں لیکن ہم ماڈل ماڈل کی اس گردان میں یہ بھول جاتے ہیں قوموں نے یہ تمام ماڈل اپنے لئے بنائے تھے‘ چائنیز ماڈل صرف چین‘ ایرانی انقلاب صرف ایران‘ ترکش ماڈل صرف ترکش اور
ملائیشین ماڈل صرف ملائشیا میں کامیاب ہوا‘ یہ ماڈل جس قوم نے بھی کاپی کرنے کی کوشش کی وہ بری طرح ناکام ہوئی‘ پاکستان ایک الگ اور منفرد ملک ہے‘ اس ملک میں اگر کوئی ماڈل کامیاب ہو سکتا ہے تو وہ ماڈل پاکستانی ہو گا‘ ہم نے جس دن پاکستانی ماڈل بنا لیا‘ ہم اس دن کامیاب ہو جائیں گے مگر بدقسمتی سے ہماری صورت حال یہ ہے ہماری پوری گورنمنٹ واٹس ایپ پر چل رہی ہے‘ بیورو کریٹس ہوں‘ وزراء ہوں‘ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہو‘ ہماری اپوزیشن ہو‘ ہماری جوڈیشری ہو یا پھر ہمارے بزنس مین ہوں یہ جب بھی کوئی خفیہ بات کرنا چاہتے ہیں یا یہ کوئی خفیہ حکم دینا چاہتے ہیں تو یہ دوسرے کو ’’واٹس ایپ پر آ جاؤ‘‘ کا پیغام دیتے ہیں اور واٹس ایپ پر کال کر دیتے ہیں لیکن ہم یہ بات بھول جاتے ہیں واٹس ایپ کے اس پورے ریجن کے سرورز انڈیا میں ہیں اور سرورز کو ہیک کرنا اب ناممکن نہیں رہا چنانچہ ہو سکتا ہے سرحد کے پار ہماری پوری حکومت کی گفتگو سنی جا رہی ہو‘ آپ اندازہ کیجئے ہم لوگ‘ ہم سپر مائینڈ لوگ اگر اپنی حکومت کیلئے کوئی محفوظ اور ذاتی ایپلی کیشن نہیں بنا سکتے تو ہم نے پورے ملک کیلئے کیا ماڈل تخلیق کرنا ہے‘ ہم لوگ تو معیشت کیلئے بھی ملائشیا کے مہاتیر محمدکے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہیں‘ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، عمران خان کی باتوں کا فورم غلط ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ باتیں بھی غلط ہیں‘ کیا ملک میں غربت‘ کرپشن‘ بے روزگاری اور پسماندگی نہیں ہے اور کیا خاموش رہنے سے یا منہ پر ٹیپ لگانے سے یہ مسئلے حل ہو جائیں گے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔