اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت، آئی جی پنجاب، آر پی او ساہیوال اور ڈی پی او رضوان گوندل عدالت پیش، تبادلہ کسی شخص کے کہنے پر ہوا تو غیر قانونی ہے، جو بھی واقعات میں شامل رہا سب کو بلائیں گے، چیف جسٹس کے ریمارکس، آرپی او ساہیوال اور ڈی پی او رضوان گوندل سے بیان حلف طلب۔ تفصیلات کے مطابق
سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بنچ نے ڈی پی او پاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ آئی جی پنجاب کلیم امام، آر پی او ساہیوال شارق کمال صدیقی اورسابق ڈی پی او رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کسی شخس کے کہنے پر ہوا تو غیر قانونی ہے ، جو بھی واقعات میں شامل رہا ہے سب کو بلائیں گے۔ کیس کی سماعت کے دوران آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ رضوان گوندل نے حقائق کے خلاف باتیں بتائیں،ایک خاتون کیساتھ بدتمیزی کی گئی تھی، حلفیہ کہتا ہوں کسی کے کہنے پر تبادلہ نہیں کیا،جس سے چاہیں میرے بارے میں پوچھ لیں، رضوان گوندل مجھ سے پوچھے بغیر وزیراعلیٰ کے پاس گئے۔وزیراعلیٰ ہائوس میں رضوان گوندل سے ہوئی بات چیت کا علم نہیں، تبادلہ کوئی سزا نہین ہوتی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے وزیراعلیٰ کے کہنے پر تبادلہ کیا بطور آئی جی پی ڈی پی او کا دفاع کیوں نہیں کیا۔ کیا آرٹیکل 62کا اس کیس پر اطلاق ہوتا ہے؟کیا وزیراعلیٰ پر براہ راست یہ آرٹیکل لگ سکتا ہےجو بھی واقعات میں شامل رہا سب کو بلائین گے، رضوان گوندل کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ ہائوس سے طلبی پر وہاں گیا ، وہاںطے ہوا تھا کہ آر پی او ساہیوال انکوائری کرینگے،وزیراعلیٰ کو بتایا کہ کوئی سازش نہیں ہو رہی، وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا مجھے یہ ڈی پی او نہیں چاہئے، وزیراعلیٰ کے اسٹاف افسر نے رات 12بجے کال کر کےتبادلے کا بتایا،رات ساڑھے 12بجے آری پی اوکو بتایا کہ میرا تبادلہ ہو گیا ہے۔حیدر نے پوچھا کہ کیا آپ نے چارج چھوڑ دیا ہے۔