اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے مؤقر قومی اخبار کے رپورٹر عمر چیمہ منی لانڈرنگ کا نیا سکینڈل منظر عام پر لائے ہیں جس میں پاکستان کی اہم سیاسی شخصیت سمیت متعدد تاجر، بینکار ملوث ہیں۔عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق سیاسی لحاظ سے اثر رسوخ رکھنے والے کراچی کے ایک تاجر کے پاس ماہانہ 25؍ ہزار روپے کی معمولی ملازمت کرنے والے طارق سلطان کو
جب ایف آئی اے کے تفتیش کاروں نے بتایا کہ وہ ایک کمپنی کا مالک ہے تو اس سے یہ بات ہضم نہیں ہو پائی۔ اس کمپنی ’’اے ون انٹرنیشنل‘‘ کے تین بینکوں میں پانچ بینک اکائونٹس ہیں اور یہ 8؍ ارب روپے کی مشکوک لین دین کیلئے استعمال کیے گئے۔ ایف آئی اے کے تفتیش کاروں کو طارق سلطان نے بتایا کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں ایک عرب شہری تک نہیں دیکھا، 8؍ ارب روپے تو دور کی بات ہے۔ ایف آئی اے حکام 35؍ ارب روپے کی ممکنہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہے ہیں جس میں ایک سینئر سیاسی رہنما اپنے ایک کاروباری اور بینکار دوستوں کے ہمراہ ملوث ہے۔ کراچی کے تین مختلف بینکوں مین موجود 29؍ اکائونٹس کو اس لین دین کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس لین دین کا منی ٹریل موجود ہے، لین دین کیلئے ایک مشکوک اکائونٹ سے دوسرے اکائونٹ میں بھاری رقوم منتقل کی گئیں اور اسے چھپانے کی کوشش کی گئی، لیکن ایف آئی اے نے اُن بڑی مچھلیوں کی نشاندہی کر لی ہے جو رقم ادا یا وصول کر رہے تھے۔ رقم کی ادائیگی تو اصل اکائونٹ سے کی جا رہی تھی لیکن اسے مختلف جعلی اکائونٹس سے گھما پھرا کر مطلوبہ افراد تک پہنچایا جا رہا تھا۔ سندھحکومت کے مختلف ٹھیکے دار، پراپرٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا نام، شوگر ملز، سیاسی اہمیت کے حامل ایک گھر کا پروٹوکول افسر، 58؍ ایکڑ زمین کا ایک خریدار اور دیگر لوگ رقوم بھجوانے والوں میں شامل ہیں۔
زمین فروخت کرنے والا شخص ایک سیاسی جماعت کا ضلع ملیر کا صدر ہے جس نے زمین کے اصل مالک یعنی پاکستان اسٹیل ملز کے بارے میں خریدار کو اندھیرے میں رکھا جس نے اب اپنی زمین کی واپسی کیلئے سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اب تک رقم سے فائدہ اٹھانے والوں کی شناخت ہوئی ہے ان میں ایک سینئر سیاسی رہنما، ان کے دو قریبی ساتھی (ایک کاروباری شخصیت
اور ایک غیر ملکی شہری جو پاکستان کے ایک بینک کا چیئرمین بھی ہے، انہیں اس لین دین کیلئے استعمال کیا گیا ہے)۔ صرف طارق سلطان نامی شخص کے نام پر بنائے گئے اکائونٹ کے ذریعے 3.04؍ ارب روپے بینک کے چیئرمین کو منتقل کیے گئے، 293.78؍ ملین روپے کاروباری شخص (طارق سلطان اس کا ملازم ہے) کو منتقل کیے گئے، 10.50؍ ملین روپے سیاسی رہنما کو
جبکہ 2.20؍ ارب روپے 6؍ دیگر مشکوک اکائونٹس میں منتقل کیے گئے۔ مذکورہ بینک اکائونٹس میں سے 490.26؍ ملین روپے نقد نکلوائے گئے۔ ایک ٹریول ایجنٹ کو 25؍ ملین روپے کی ادائیگی بھی کی گئی ہے۔ طارق سلطان کی طرح ارم عقیل نامی خاتون کے نام سے بھی ایک اکائونٹ بنایا گیا۔ یہ خاتون مبینہ طور پر ابراہیم لنکرز نامی کمپنی کی مالک ہیں۔ ارم عقیل نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے
کہ ان کی کوئی کمپنی ہے اور اس کے اکائونٹس سے ایک ارب روپے سے ز ائد کا لین دین کیا گیا ہے۔ یہ انکوائری اس وقت شروع ہوئی جب اسٹیٹ بینک کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ نے 10؍ مختلف بینک اکائونٹس کے حوالے سے رواں سال جنوری میں ایک مشکوک لین دین کی رپورٹ جاری کی۔ ان میں سے چار بینک اکائونٹ سمٹ بینک میں تھے جو نومبر 2015ء میں ایف آئی اے کی اسکروٹنی
کے دائرے میں آئے تھے لیکن پھر یہ تحقیقات ایک مہینے کے اندر ہی بند کر دی گئی۔ اسباب کا علم نہیں۔ ان چار میں سے ایک اکائونٹ طارق سلطان کی مبینہ کمپنی اے ون انٹرنیشنل، ایک عدنان جاوید نامی شخص کی کمپنی لکی انٹرنیشنل، اقبال آرائیں نامی ایک شخص کی اقبال میٹل نامی کمپنی اور ایک اور شخص محمد عمیر کی مبینہ کمپنی عمیر ایسوسی ایٹس کے نام پر کھولے گئے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق، دیے گئے پتے پر سوائے طارق سلطان کے کسی اور کا سراغ نہیں ملا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جن 6؍ دیگر بینک اکائونٹس کا ذکر کیا گیا ہے ان میں رویال انٹرپرائزز، الفا زُولو (پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاجسٹک ٹریڈنگ، ابراہیم لنکرز، ایگرو فارمز ٹھٹّہ اور پارتھینون (پرائیوٹ) لمیٹڈ شامل ہیں۔ جیسے ہی تحقیقات کا آغاز ہوا، ایف آئی اے نے 19؍ دیگر بینک اکائونٹس کا پتہ لگایا
جو ان 10؍ مشکوک بینک اکائونٹس کے ساتھ جڑے تھے۔ یہ تمام 29؍ بینک اکائونٹس سات افراد کے مبینہ کاروبار کے نام پر استعمال ہو رہے ہیں۔ سمٹ بینک میں 16؍، سندھ بینک میں 8؍ جبکہ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ میں 5؍ بینک اکائونٹس کی اسکروٹنی جاری ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے گھاٹے میں جانے والے سمٹ بینک کو سندھ بینک میں ضم کرنے کی کوشش کو اس وقت ناکام بنایا تھا
جب سمٹ بینک کے ایک شیئر ہولڈر نے عدالت سے رجوع کیا۔ ایف آٗی اے کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بینکاروں اور چینی کے بروکرز کے بیانات کے مطابق اس تفتیش میں مرکزی حیثیت کے حامل ایک کاروباری شخص کے دو سینئر ایگزیکٹوز عارف خان اور اسلم مسعود یہ اکائونٹس چلا رہے تھے اور انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ ان اکائونٹس میں کریڈٹ ادائیگی کریں۔
ایف آئی اے کی انکوائری میں اسلم مسعود کو سمٹ بینک کے سابق صدر حسین لوائی کا قریبی دوست بتایا گیا ہے۔ حسین لوائی کو حال ہی میں بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا جبکہ مذکورہ کاروباری شخص پہلے ہی ملک سے روانہ ہو چکا ہے۔ ان اکائونٹس میں رقم کریڈٹ کرنے والے شخص میسرز العصر کنسٹرکشن اینڈ بلڈرز کے امان اللہ میمن سے ایف آئی اے نے انٹرویو کیا جس میں
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بن قاسم ٹائون میں میسرز الاقصیٰ بلڈرز اینڈ ڈویلپرز، جس کے مالک شیخ عدیل اختر ہیں (سیاسی جماعت کے ملیر چیپٹر کے نائب صدر)، سے ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر احسان اللہ کے ذریعے 2؍ جون 2014ء کو کیے گئے معاہدہ فروختگی کے تحت 58؍ ایکڑ زمین خریدی۔ انہوں نے عمیر ایسوسی ایٹس کے اکائونٹ میں رقم منتقل کی۔ اب اس زمین پر اسٹیل ملز نے دعویٰ کیا ہے اور سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے۔