اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)اسلام آباد ہائیکورٹ نے ختم نبوت کے تفصیلی فیصلے میں سابق خاتون وزیر مملکت انفارمیشن اینڈٹیکنالوجی کو مرکزی ملزم قرار دے دیا۔تفصیلی فیصلہ جو کہ 172صفحات پر مشتمل ہے کے صفحہ نمبر163پر درج ہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی 91 ویں کمیٹی میں پیش کئے جانے والے ڈارفٹ کو ری چیک کرکے انوشہ رحمان نے جمع کروایا۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ میں شامل ختم نبو ت سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔فیصلہ اسلام آباد ہا ئیکو رٹ کے جسٹس شوکت عزیر صدیقی نے تحریر کیا۔عدالت عالیہ اسلام آباد نے حکم دیا حکومت فی الفور راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ پبلک کرے ، دین اسلام اور آ ئین پاکستان مذہبی آ زادی سمیت اقلیتوں کے تمام بنیا دی حقو ق کی ضمانت فرا ہم کر تا ہے۔ریا ست پا کستان کے ہر شہر ی پر لازم ہے کہ و ہ اپنی شناخت درست اور صحیح کوائف کے ساتھ جمع کرائے۔ کسی مسلم کو یہ اجازت نہیں کہ و ہ اپنی شناخت کو غیر مسلم میں چھپائے۔ بدقسمتی سے اس واضح معیار کے مطا بق ضروری قانون سازی نہیں کی جا سکی، جس کے نتیجے میں غیر مسلم اقلیت اپنی اصل شناخت چھپا کر ریاست کو دھوکہ دیتے ہوئے خود کو مسلم اکثریت ظاہر کرتی ہے۔ جس سے نہ صرف مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ انتہائی اہم تقاضو ں سے انحرا ف کی راہ بھی ہموار ہو جا تی ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا یہ بیانیہ کہ سول سروس کے کسی سو ل آفیسر کی اس حوالے سے مزید شنا خت موجود نہیں، ایک المیہ ہے، یہ امر آئین پا کستان کی رو ح اور تقا ضوں کے منافی ہے ۔ ختم نبو ت کا معاملہ ہما رے دین کا اساس ہے۔پارلیمنٹ ختم نبو ت کے تحفظ کو یقینی بنا نے کے لئے اقدامات کرے ۔
شناختی کارڈ ،پیدائشی سرٹیفکیٹ، انتخابی فہرستوں اور پاسپورٹ کے لئے مسلم اور غیر مسلم کے مذہبی شناخت کے حوالے سے بیان حلفی لیا جائے۔سرکاری، نیم سرکاری اور حساس اداروں میں ملازمت کیلئے بھی بیان حلفی لیا جائے ۔ مردم شماری اور نادرا کوائف میں شناخت چھپانے والوں کی تعداد خوفناک ہے ۔ نادرا اور محکمہ شماریات کے ڈیٹا میں قادیانیوں کے حوالے سے معلومات میں واضح فرق پر تحقیقات کی جائیں۔
تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے کیلئے مسلمان ہونے کی شرط لازمی قرار دی جائے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ شناخت کا نہ ہونا آئین پاکستان کی روح کے منافی ہے۔الیکشن ایکٹ میں ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی واپسی حکومت کی جانب سے احسن اقدام ہے۔راجہ ظفر الحق کمیٹی نے انتہائی اعلی رپورٹ مرتب کی جائیں۔عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 29مئی 2017ء کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں تمام تر ایکٹ کی شقوں کو پیش کیا گیا اور جس کا ری ڈرافٹ کرنے کی ذمہ داری انوشہ رحمان اور ایم این اے شفقت محمود کو سونپی گئی تھی۔عدالتی فیصلے میں واضح لکھا گیا ہے کہ انوشہ رحمان نے میٹنگز کے ڈرافٹ کو فائنل کرکے پیش کیا۔