اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کا سابق حکمران خاندان شریف فیملی اس وقت پاکستان میں اپنی بیرون ملک جائیدادوں کے حوالے سے عدالتوں میں مقدمات بھگت رہا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادو ں حسن اور حسین نواز کے ساتھ ساتھ ان کی صاحبزادی مریم نواز ان کے شوہر کیپٹن صفدر، سمدھی اسحاق ڈار اور ان کے بیٹوں پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے
حکم پر تین نیب ریفرنسز قائم کئے گئے ہیں۔ شریف خاندان کی برطانیہ میں قیمتی جائیدادوں اور دنیا بھر میں پھیلے کاروبار سے متعلق پانامہ لیکس میں انکشافات سامنے آئے تھےجس کے بعد مخالف سیاسی جماعتوں کی بے انتہا تنقید اور تحریک چلائے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس پر سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت شریف خاندان کے خلاف کیس سننے کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے تحقیقات کیلئے مختلف اداروں کے افسران پر مشتمل ایک جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ آنے کے بعد سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کو جھوٹا اور بے ایمان قرار دیتے ہوئے ان کی سیاسی جماعت کی صدارت سے بھی نا اہل قرار دیا گیا۔ شریف خاندان کی لندن میں جائیداد کے حوالے سے اب ایک برطانوی اخبار میل آن لائن نے چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے جس میں شریف خاندان کی لندن میں موجود جائیدادوں کی مالیت کی تفصیلات اور ان کی خریداری کیلئے کی گئی منی لانڈرنگ کی تفصیلات بھی جاری کی گئی ہیں۔ میل آن لائن کے پاکستان میں خصوصی نمائندےڈیوڈ روز نے اپنی رپورٹ میں شریف خاندان کو ’’پینٹ ہائوس پائیرٹس‘‘یعنی پینٹ ہائوس کے قزاق کا لقب دیا ہے۔ خیال رہے کہ برطانیہ میں پینٹ ہائوس نہایت قیمتی رہائش گاہ کو کہا جاتا ہے۔
ڈیوڈ روز اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ایون فیلڈ ہائوس پارک لین کے سب سے اوپری حصے میں مے فیئر کے دل میں واقع ہے جہاں سے ہائیڈ پارک کا نظارہ کیا جا سکتا ہے مگر یہ ایک ایسے خاندان نے خرید لی جو کہ کرپشن کے حوالے سے بدنام مگر بے پناہ سیاسی اثرو رسوخ کی مالک ہے۔ ایون فیلڈ جہاں پاکستان کے سب سے امیر سابق وزیراعظم نواز شریف 1993سے رہائش رکھے ہوئے ہیں۔
چار فلیٹس کو توڑ کر انہوں نے ایک مینشن بنا لیا ہے جس کی مالیت تقریباََ 7ملین پائونڈ کے برابر ہے۔ ان فلیٹس میں ان کے بیٹے حسن اور حسین نوازکے ساتھ ساتھ ان کی صاحبزادی اور سیاسی وارث مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر بھی حصے دار ہیں ۔یہ پانچوں پاکستان میں منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ یہ فلیٹس ’’ڈرٹی منی‘‘(غیر قانونی دولت)سے خریدے گئے ہیں
جبکہ برطانیہ میں یہ شریف خاندان کی امپائر کا صرف ایک حصہ ہے۔ پراسیکیوٹر کا ماننا ہے کہ برطانیہ میں شریف خاندان کی کھڑی کی گئی امپائر نواز شریف کی تین ادوار میں کئی گئی منی لانڈرنگ کے ذریعے کھڑی کی گئی ہے۔ شریف خاندان کی منی لانڈرنگ سے متعلق نیب عدالت میں جاری تین ریفرنسز کا فیصلہ اسی ہفتے آنے کا امکان ہے اور اگر شریف خاندان کے خلاف فیصلہ آیا
تو ان کو بھاری جرمانے سمیت 14سال جیل بھی ہو سکتی ہے۔ شریف خاندان اپنے پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کر چکا ہے جبکہ نواز شریف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرماہیں۔ شریف خاندان پر منی لانڈرنگ کے ذریعے برطانیہ بھجوائی گئی دولت کے ذریعے 21قیمتی جائیدادوں کی خریداری کا الزام ہےجن میں ایون فیلڈ فلیٹس سرفہرست ہیں۔
یہ تمام جائیدادیں تقریباََسنٹرل لندن کے انتہائی قیمتی علاقے مے فیئر ، چیلسی اور بیلگریویا کے علاقوں میں قائم ہیں۔ ان تمام جائیدادوں کی مالیت 32ملین پائونڈ بتائی جاتی ہے۔ شریف خاندان کے ان کے علاوہ بھی کئی منافع بخش اثاثے ہیں جن سے متعلق وہ عدالت میں تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ دلکش پتوں پر قائم ان جائیدادوں میں سے ایک جو کہ ہائیڈ پارک میں ہے کو نواز شریف کے بیٹے
حسن نواز نے 43ملین پائونڈ میں فروخت کیا ہے۔ پراسیکیوٹرز کے مطابق، شریف خاندان برطانیہ، سوئٹزرلینڈ، مشرق وسطی اور برٹش ورجن آئی لینڈ سے ان کے پیسوں کو منتقل کر نے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں آف شورکمپنی کی ملکیت غیر قانونی نہیں ہے۔ پاکستانی احتساب کے قوانین کے مطابق شریف خاندان کو 1997سے ان اثاثوں کی قانونی حیثیت کو ثابت کرنا ہے
جو کو نیب پراسیکیوٹر کے دعوے کے مطابق وہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ احتساب عدالت میں نواز شریف کے وکیل نے دوران دلائل دعویٰ کیا ہے کہ نیب میرے مؤکل پر یہ ثابت کرنے میں ناکام ہو چکا ہے کہ وہ ان فلیٹس کے بینی فیشل آنر ہیں اور یہ کہ وہ آف شور کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ نواز شریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے ان کے مؤکل نواز شریف کا نام کسی بھی جمع کرائے گئے
ثبوت میں موجود نہیں اور نہ ہی وہ کسی قسم کا ثبوت پیش کرینگے کیونکہ ان الزامات کو ثابت کرنے کی ذمہ داری یعنی بار ثبوت نیب پر ہے جو کہ انہوں نے پیش کرنا ہے۔ رپورٹ میں ڈیوڈروز کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف ان تمام کیسز کی بنیاد جے آئی ٹی کی تحقیقات پر مبنی وہ 10والیم کے ڈوزئیر ہیں جو کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں پیش کئے تھے۔ ان میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے
کہ شریف خاندان کے اثاثے ان کی آمدن سے زائد ہیںجبکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ نواز شریف کے خلاف عہدے کے ناجائز استعمال اور سرکاری اختیار کو ذاتی فائدے کیلئے استعمال کرنے کی9دیگر کرپشن تحقیقات بھی جاری ہیں ۔نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز گزشتہ سال جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران پاکستان آئے تھے جہاں ان سے جے آئی ٹی میں سوالات کئے گئے
جس کے بعد وہ واپس لندن میں مہاجر ہو چکے ہیں ۔ ڈیوڈ روز کے مطابق پاکستان میں اگلے ماہ عام انتخابات کے سلسلے میں پولنگ ہونا ہے جبکہ اس وقت ملک بھر میں انتخابی کمپین کا سلسلہ جاری ہے اور اگر اس دوران نواز شریف کے خلاف نیب عدالت سے کوئی فیصلہ آجاتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان کے سیاسی حریف عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو ہو گا ۔
یہ عمران خان ہی تھے کہ جنہوں نے پانامہ لیکس کے ایشو کو بنیاد بنایا اور ایک تحریک کے ذریعے اس معاملے کو عدالت تک لے کر گئے۔ پانامہ لیکس میں انکشاف سامنے آیا تھا کہ شریف خاندان برطانیہ میں اربوں پائونڈز کی برطانیہ اور دیگر ممالک میں اثاثوں کا مالک ہے۔ شریف خاندان نے جے آئی ٹی کے سامنے اس الزام کو بھی مسترد کر دیا تھا کہ وہ قطر میں کسی اثاثے کا مالک ہے
یا انہوں نے وہاں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اگر یہ سب سچ ہے تو، ان کی دولت کئی بار ضرب کھا چکی ہے۔ شریفوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ قطری شہزادہ تھا جس نے دو BVI کمپنیوں کا کنٹرول حصہ خریدا، جسے اس نے 1990 کے دہائیوں میں ایون فیلڈ کے فلیٹ خریدنے کے لئے استعمال کیا تھا -اور قطری شہزادے کی شراکت کو خفیہ رکھا گیا۔ مگر 2006میں برٹس ورجن آئی لینڈ انتظامیہ نے
کمپنیوں کی خفیہ ملکیت کو غیر قانونی قرار دیدیا تھا۔ اس حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ میں درج ہے کہ برٹش ورجن آئی لینڈ سے حاصل ہونیوالی دستاویزات کے مطابق شریف خاندان کے افراد ان کمپنیوں کے مالک تھے۔ جبکہ رئیل سٹیٹ سے متعلق امپائر کے مطابق حسن نواز سنبھالتے ہیں اور برطانیہ اور دیگر ممالک میں منی لانڈرنگ کے ذریعے بھیجی گئی رقوم اور آف شور کمپنیاں دراصل
اس تمام دھندے کو کیمو فلاج کرنے کیلئے تھیں۔جے آئی ٹی کی تحقیقات پر مبنی والیمز میں کہا گیا ہے کہ حسین نواز کی کمپنی جو کہ لگژری جائیدادوں کو خریدنے میں استعمال ہو رہی ہے مگر ان کی کمپنی کو آج بھی بھاری خسارے میں دکھایا جاتا ہے۔ اور یہ بات عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک شخص کیسے اتنی بڑی امپائر کھڑی کر سکتا ہے کہ جب اس کا کاروبار خسارے کا شکار ہو۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ نواز شریف کے دور اقتدار میں ان کے خاندان کے افراد کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاندان کے افراد کی دولت میں تفاوت اور اس کی معقول قانونی مطابقت نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ امپائر غیر قانونی مالیاتی ذرائع سے بنائی گئی ہے۔ چار ماہ کے ٹرائل کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ شریف خاندان نے اپنے دفاع
میں نہ تو کوئی ثبوت پیش کیا ہے اور نہ ہی کوئی تازہ دستاویزات اپنے دفاع میں جمع کرائی ہیں۔ اور اس چیز نے عدالت کا کام زیادہ آسان کر دیا ہے کہ کیا پراسیکیوشن کہ ملزم ان فلیٹس اور دوسری جائیدادوں کا مالک ہے اور اگر ہے تو یہ غور طلب ہو گا کہ کیا جے آئی ٹی کی تحقیقات قابل اعتماد ہیں؟۔ اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور ن لیگ کی مرکزی ترجمان
مریم اورنگزیب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ یہ کیس تین مرتبہ کے وزیراعظم کی کردار کشی ہے اور جو کہ دراصل ملک کی کردارکشی کرنے کے مترادف ہے۔ ڈیوڈ روز لکھتے ہیں کہ یہ صرف’’ڈرٹی پالیٹکس ‘‘اور ’’ڈرٹی منی‘‘کی بیرون ملک منتقلی کی ہی کہانی نہیں بلکہ یہ برطانیہ کے لئے بھی تباہ کن اثرات رکھتی ہے۔ عالمی انسداد دہشت گردی کے گروپ شفافیت انٹرنیشنل کے
راہیل ڈیوس ٹکا کا کہنا ہے کہ ‘گندے پیسے کے گندے پیسے کا بہاؤ وسیع مسائل اور خرابی میں مدد کرتا ہے۔ہم نے4.4 بلین روپے کی برطانیہ کی جائیداد کی شناخت کی ہے جسے ایک اعلی شخصیت کی منی لانڈرگ کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے جو کہ ایک برفانی گلیشئرکی صرف نوک ہے۔مگر جب شریف خاندان کی انکوائری کا معاملہ آتا ہے، تو برطانیہ اس کے بارے میں بہت کم کام کر رہا ہے،
اگرچہ اس نے گندے پیسے کے بہاؤ کو روکنے کا وعدہ کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے غیر ملکی تحقیقات کرنے میں مدد کریگا۔شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کرنے والے تفتیش کاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس حوالے سے برطانوی حکومت کی جانب سے انہیں کسی قسم کی مدد نہیں مل سکی۔ شریف خاندان کے خلاف تحقیقات میں اہم کردار ادا کرنیوالے پاکستان کے
ایک حساس ادارے کے افسر کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیقات کے دوران برطانیہ نے شریف خاندان سے متعلق معلومات شیئر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمیں برطانیہ سے پاکستان بینک ٹرانزکشن کے بارے میں معلومات تھیں اور جب ہم نے اس حوالے سے برطانوی حکومت سے شریف خاندان کے برطانیہ میں اکائونٹس تک رسائی کی درخواست کی تو اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس حوالے سے جب ہم نے سکاٹ لینڈ یارڈ
کے افسر کو کہا تو اس نے اس حوالے سے دلچسپی دکھائی لیکن جب معلومات تک رسائی کی بات آئی تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس افسر کا کہنا تھا کہ جب لندن میں شریف خاندان کی جائیدادوں اور برٹش ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کیلئے برطانیہ کے ویزے کے حصول کی درخواست کی گئی تو برطانوی حکومت نے اس حوالے سے ہفتوں معاملہ لٹکائے رکھا اور جب ویزہ فراہم کیا گیا
تو بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ کیس میں ججز کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن پوری ہوچکی تھی۔ اس افسرکا مزید کہنا تھا کہ یہ یقیناََ برطانوی حکومت کا ایک سیاسی فیصلہ تھا کیونکہ نواز شریف کی جماعت اس وقت اقتدار میں تھی اور برطانیہ ایسا کر کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا۔ جب اس حوالے سے برطانوی وزارت داخلہ کے ایک افسر سے میل آن لائن نے
سوال کیا کہ کیا برطانوی حکومت ایسی کسی تفتیشی کی مدد کر ے گی جو برطانیہ میں ناجائز اور منی لانڈرنگ کے ذریعے بھیجی گئی دولت کا سراغ لگانے آئے تو اس پر اس افسرکا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاہم ہم برطانیہ میں اس طرح کی جائیدادوں اور دولت سے نہ تو انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے جب میل آن لائن کے ذرائع نے حسین نواز کا مؤقف جاننا چاہا تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔