کل صرف وزیر داخلہ احسن اقبال کو گولی نہیں لگی‘ یہ گولی ملک کے وقار‘ ملک کی عزت اور ملک کی سیکورٹی کو لگی‘ دنیا کے ہر ملک کی چار وزارتیں خارجہ‘ داخلہ‘ خزانہ اور دفاع حکومت کی وزارتیں نہیں ہوتیں‘ یہ ملک کی وزارتیں ہوتی ہیں‘ جب بھی ان وزارتوں کے امینوں پر حملہ ہوتا ہے تو وہ ریاست پر حملہ سمجھا جاتا ہے اور احسن اقبال صرف وزیر نہیں ہیں‘یہ پاکستان کی عزت‘ وقار اور سیکورٹی کا سمبل بھی ہیں اور کل اس سمبل کو گولی ماری گئی‘
یہ قدم کسی لحاظ سے برداشت نہیں کیا جا سکتا‘ یہ ایک زاویہ تھا‘ دوسرا زاویہ اس حملے پر رد عمل ہے‘ عمران خان سے لے کر آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو‘ سراج الحق اور صادق سنجرانی تک ملک کے تمام سیاستدانوں نے اس حملے کی مذمت کی‘ پی ٹی آئی کے فواد چودھری اور ابرار الحق آج احسن اقبال کی عیادت کیلئے ہسپتال بھی گئے اور پی ٹی آئی کے آفیشل پیجز پر بلٹ نہیں بیلٹ کا نعرہ بھی لکھا گیا‘ یہ رویہ قابل تعریف ہے اور یہ ہو گا تو جمہوریت چلے گی اور اگر جمہوریت ہو گی تو ملک چلے گا ورنہ ہم ختم ہو جائیں گے اور اس واقعے کا آخری زاویہ اس شدت پسندی کی وجہ کیا ہے‘ کل مریم نواز صاحبہ نے ٹویٹ کی تھی، شوٹر محض ایک ذریعہ ہے‘ اصل مجرم وہ ہیں جو سیاسی مقاصد کیلئے اس کی سرپرستی کر رہے ہیں‘ یہ سرپرستی کرنے والے کون ہیں‘ میں کیپٹن صفدر اور شیخ رشید جیسے لوگوں کو اس واقعے کا ذمہ دار سمجھتا ہوں‘ یہ کیپٹن صفدر کے یہ خیالات ہیں جن کی وجہ سے آج احسن اقبال جیسے ایماندار سیاسی ورکرز کو گولی لگ رہی ہے اور یہ شیخ رشید جیسے لوگ ہیں جو پاکستان تحریک انصاف جیسی معتدل پارٹی کی پلیٹ فارم سے اس قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے اختلاف پہلے گالی بنا‘ پھر جوتے میں تبدیل ہوا‘ پھر سیاہی بنا اور اب گولی بن گیا ہے‘ پیچھے صرف بم بچا ہے‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں‘ اگر نہیں تو پھر آپ کو شیخ رشید اور کیپٹن صفدر جیسے لوگوں کے خیالات کو لگام دینا ہوگی‘ یہ سوچ اور یہ ملک ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔