اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

یہاں چور ڈاکو بھی تاحیات نا اہل نہیں ہوتے،ہماری عدلیہ مارشل لا کے سامنے کھڑی نہ ہوسکی،نوازشریف کی کڑی تنقید،دوٹوک اعلان کردیا

datetime 17  اپریل‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے اور افسوس کی بات ہے ہمارے ملک میں جمہور یت آج تک قدم نہیں جما سکی ٗیہاں چور ڈاکو بھی تاحیات نا اہل نہیں ہوتے ٗ کیا میرا جرم میرا نام محمد نوازشریف ہے ٗ میری نااہلی کو چھوڑیں مجھے عوام کی نااہلی کی فکر ہے ٗکوئی ہے جسے فکر ہو کہ پاکستان پر کیا گزر رہی ہے ٗ

سیاسی استحکام اور ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا ٗصرف 20 وزرا اعظم کا دور 38 برس ہے ٗ آمریتوں کا دور 32 برس ہے ٗکوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا ٗہماری عدلیہ مارشل لا کے سامنے کھڑی نہ ہوسکی، عدلیہ نے کبھی بھی وہ کردار ادا نہ کیا جو وہ سول حکومتوں کے دوران کرتی رہیں ٗ تمام آمروں کو آئین کی چھیر پھاڑ کی اجازت دے دی ٗصرف 20 وزرا اعظم کا دور 38 برس ہے جبکہ آمریتوں کا دور 32 برس ہے اورکوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا ٗعوام کی پسند کے بجائے مطلب کے حکمران تلاش کرنا، اسے ووٹ کی توہین کہا جا سکتا ہے۔ منگل کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی شخصیات قومی احتساب بیورو (نیب) کے نشانے پر ہیں ایسے میں آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟۔سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہلی کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہاں چور ڈاکو بھی تاحیات نااہل نہیں ہوتے لیکن کیا میرا جرم ان سب سے بڑا ہے ٗمیرا جرم یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی ٗکیا میرا جرم میرا نام محمد نواز شریف ہے۔انھوں نے کہا کہ میری نااہلی کو چھوڑیں مجھے عوام کی نااہلی کی فکر ہے، کوئی ہے جسے فکر ہو کہ پاکستان پر کیا گزر رہی ہے ٗسیاسی استحکام اور ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا۔نواز شریف نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اپنے اندر پوری تاریخ سموئے ہوئے ہے، افسوس کی بات ہے کہ جمہور یت آج تک ہمارے ملک میں قدم نہیں جما سکی،

مہذہب قومیں عوامی فیصلوں کا احترام کرتی ہیں اور ادارے اسے تسلیم کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی کو حکمرانی کا حق سونپنا صرف عوام کا حق ہے، عوام کی رائے کو کس طرح بار بار کچلا گیا، عوام کے ووٹ کی طاقت کو کیوں کر عبرت کا نمونہ بنایا گیا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ 70 برس تک ہم اس بیمار سوچ کا خاتمہ کیوں نہ کرسکے، ہماری عدلیہ مارشل لا کے سامنے کھڑی نہ ہوسکی، عدلیہ نے کبھی بھی وہ کردار ادا نہ کیا جو وہ سول حکومتوں کے دوران کرتی رہیں اور تمام آمروں کو آئین کی چھیر پھاڑ کی اجازت دے دی۔

انہوں نے کہاکہ صرف 20 وزرا اعظم کا دور 38 برس ہے جبکہ آمریتوں کا دور 32 برس ہے اورکوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا۔نواز شریف نے کہا کہ بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا، بے نظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا اور مجھے ہائی جیکر قرار دیا گیا اور آج جو میرے ساتھ ہورہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے، اگر ووٹ کی عزت نہ ہوئی تو پاکستان ایسے ہی گرداب میں گھرا رہے گا۔انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون بھی کالعدم قرار دیئے جارہے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے انتخابات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے وقت پر انتخابات کا اعلان کیا ہے ٗ

ان کا یہ عزم خوش آئند ہے مگر مسلم لیگ (ن) کو نشانہ پر رکھ لیا گیا ہے ٗانھوں نے کہا کہ ایسے ماحول میں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہونے کی امید ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ نکلنے کا مقصد ووٹ کے تقدس کو بحال کرانا ہے، ملک میں 70 سال کے دوران ووٹ کو عزت نہیں دی گئی اور آج تک بے توقیری کی جارہی ہے۔نواز شریف نے کہا کہ عوام ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سناتی ہے ٗمہذب قومیں عوام کے فیصلے کا احترام اور تمام ملکی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں ٗلیکن عوام کی پسند کے بجائے مطلب کے حکمران تلاش کرنا، اسے ووٹ کی توہین کہا جا سکتا ہے۔

نوازشریف نے کہاکہ کسی کو حکمرانی کا حق دینا عوام کا اختیار ہے ٗعوامی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے، ممکن ہے کچھ حلقوں کو فیصلہ پسند نہ آئے۔ نواز شریف نے کہاکہ عوام کی طاقت سے اقتدار میں آنے والی لیڈرشپ کو کیوں عبرت کا نشانہ بنایا گیا، میں سیاسی مفکرین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ قومی وجود کو لاحق اس بیماری کا سراغ لگائیں، پتہ لگایا جائے کہ جمہوری اور دستوری اداروں کے خلاف یہ سوچ کیوں پیدا ہوئی، 70برس تک ہم اس بیمار سوچ کا خاتمہ کیوں نہ کرسکے، ان سوالات کے سچ اور کھرے جوابات تلاش ضرور کئے جانے چاہئیں، اگر ہم منافقت اور خودفریبی سے کام لیتے رہے تو یہ پاکستان سے اور آگے آنے والی نسلوں سے بے وفائی ہوگی،

یہ ان نوجوانوں سے بے وفائی ہوگی جو روشن مستقبل کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں آزادی کے فوراًبعد سیاسی افراتفری کا سامنا کرنا پڑا، قائداعظم کی رحلت نے ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کردیا، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کردیا گیا، اس وقت پاکستان کی عمر 4سال تھی، 1953میں دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم کو برطرف کرکے امریکہ میں تعینات پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو پاکستان کا وزیر اعظم بنایا گیا، گورنر جنرل غلام محمد اور وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے نئی روایت کی بنیاد ڈالی ، انہوں نے جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع کا منصب سونپ کر وفاقی کابینہ کا رکن بنایا ،

اس وقت پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی 7سال کی زبردست محنت کے بعد کافی حد تک اپنا کام مکمل کرچکی تھی، قرارداد مقاصد ، بنیادی انسانی حقوق ، اقلیتوں کے حقوق اور ریاستی نظام کے بنیادی اصولوں کی منظوری دی جاچکی تھی، ایک جمہوری پارلیمانی ریاست کا آئینی ڈھانچہ تیار کا جاچکا تھااور دستور ساز اسمبلی پاکستان کا پہلا آئین پیش کرنے جارہی تھی کہ اکتوبر 1954میں گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی توڑ دی، قائداعظم کے انتقال کے بعد مولوی تمیزالدین اسمبلی کے صدرتھے، وہ بھیس بدل کر رکشے میں بیٹھ کر سندھ ہائی کورت پہنچے، گورنر جنرل کے اقدام کو چیلنج کیا، ہائی کورت نے گورنر جنرل کے اقدام کو غلط اور خلاف قانون قرار دے دیا،

حکومت نے فیڈل کورٹ میں اپیل کی اور جسٹس منیر نے رسوائے زمانہ نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر گورنر جنرل غلام محمد کے اقدام کو درست قرار دے دیا۔ نواز شریف نے کہا کہ دستور ساز اسمبلی پہلے دستور کے ساتھی ہی موت کے گھاٹ اتار دی گئی، اس سے جمہوریت اور پاکستان کے سینے پر ایسا زخم لگا جو آج تک بھر نہیں سکا، اس کھیل سے ڈرامے کے کچھ کردار ابھر کر سامنے آئے، ایک گورنر جنرل غلام محمد، دوسرے جسٹس منیر احمد ، اور تیسرا جنرل ایوب خان جنہوں نے وزیر دفاع کا منصب بھی سنبھال رکھا تھا، یہ کردار کسی نہ کسی طور پر آج بھی زندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1955میں محمد علی بوگرا کی رخصتی کے بعد چوہدری محمد علی نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا،

انہوں نے پاکستان کے آئین کی تیاری کو پہلے ترجیح قرار دیا، اور دن رات کی محنت کے بعد وہ ایک آئین تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہ آئین 23مارچ 1956کو نافذ کردیا گیا، اس آئین میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا، اس بات کا اعلان کیا گیا کہ 2سال کے اندر آئین کے تحت پہلے عام انتخابات ہوں گے، پاکستان کا پہلا آئین بنانے والے شریف النفس وزیراعظم کو آئین کے نفاذ کے 6ماہ بعد ایک سازش کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف نے کہا کہ حسین شہید سہروردی اور آئی آئی چند دیگر سے ہوتی ہوئی وزارت عظمیٰ دسمبر 1957میں سر فیروز خان نون تک پہنچی، جون 1958میں جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت ختم ہورہی تھی لیکن ان کی ملازمت میں توسیع کردی گئی،

اور وہ آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہے، فیروز خان نون کا ایک کارنامہ ہماری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ ان کے عہد میں 7ستمبر 1958کو گوادر کی عظیم بندرگاہ پاکستان کے ساحلوں کا حصہ بنی۔ انہوں نے کہا کہ اس عظیم کارنامے کے محض ایک ماہ بعد 7اکتوبر 1958کو ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء لگادیا۔فیروز خان نون کو معزول کردیا گیا اور 4ماہ قبل اپنی مدت ملازمت میں توسیع پانے والا آرمی چیف جنرل ایوب خان ملک کے سیاہ وسفید کا مالک ہوگیا۔ یہاں سے فوجی آمریتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ میں نے ماضی کی تاریخ اس لیے بھی بیان کی ہے کہ یہ ہمارے حال سے بہت ملتی جلتی ہے،

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئین سازی کی ہر کوشش کو کس طرح ناکام بنایا گیا، چوہدری محمد علی کا تیار کردہ آئین مارچ 1956میں نافذہوا، اس آئین کے تحت پہلے انتخابات کیلئے انتخابی مہم اپنے عروج پرتھی، عوام ووٹ کے ذریعے اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے جارہے تھے کہ مارشل لاء لگ گیا اور 1956کا آئین منسوخ کردیا گیا، اور آمریت ملک کا نظام کہلائی۔انہوں نے کہا کہ ہماری تاریخ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہماری عدلیہ آمروں کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور اسے عوام کے حق رائے دہی کیلئے جو توانا اور مضبوط کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ نہ کرسکی ہر مارشل لاء کیلئے کوئی نہ کوئی نظریہ ضرورت ایجاد کرلیا گیا،

ہر مارشل لاء کے جاری کردہ ( پی سی او) یعنی خود ساختہ آئینی حکمرانی کو قبول کرلیا گیا، 1958، 1960، 1977اور 1998کے مارشل لاء ہماری عدالتوں نے قبول کرلیئے ، اور انہیں جائز قرار دیتے ہوئے ان سے حلف وفاداری بھی اٹھا لیا، عدلیہ نے مارشل لاء کے دوران کبھی بھی فعال اور متحرک کردار ادا نہ کیا جو وہ سول حکومتوں کے دوران ادا کرتی رہی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ 2013کے انتخابات توانائی کے بحران ، دہشتگردی کے خاتمہ اور کمزور ملکی معیشت جسے بڑے ملکی مسائل کی بنیاد پر ہوئے تھے، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری تھی،

اس کے ساتھ ساتھ محمود خان اچکزائی اور میر حاصل بزنجو کی جماعت سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھری تھی محرومی کا شکار اور ناراض لوگوں نے کسی بھی مقامی نعرے اور تعصب سے ہٹ کر بڑی قومی جماعت کوووٹ دیا ، لیکن ووٹ کی عزت پامال کرنے والی سوچ نے انتخابی نتائج کے اس روشن پہلو کو تباہ کردیا۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزائی ، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب اور میر حاصل بزنجو نے شرکت ، گورنر سندھ محمد زبیر ، سینٹر مشاہد حسین سید، وزیر کیڈ طارق فضل چوہدری، اے این پی کے رہنما غلام بلور اور ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد بھی سیمینار میں موجود تھی۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…