خواتین وحضرات ۔۔ ہمیں ملک میں نئے صوبوں کے ایشو کو ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ دیکھنا ہوگا‘ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ آبادی گیارہ کروڑ اور رقبہ دو لاکھ پانچ ہزار تین سو چوالیس مربع کلو میٹرہے‘ قومی اسمبلی کی54فیصد نشستیں پنجاب کے پاس ہیں گویا آپ اگر صرف پنجاب کی سیٹیں لے لیں تو آپ پورے ملک پر حکومت کر سکتے ہیں‘ یہ ایک سیدھی سادی سیاسی
بلیک میلنگ ہے‘ کسی ایک صوبے کو صرف اکثریت کی بنیاد پر پورے ملک پر حکمرانی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ 1971ء میں بھی یہی صورت حال تھی‘ ملک کے دو یونٹ تھے‘ مشرقی اور مغربی دونوں یونٹس کی دو پارٹیوں نے اپنے اپنے حصے میں اکثریت حاصل کر لی‘ نتیجہ کیا نکلا‘ ملک ٹوٹ گیا‘ ہم نے اگر آج پنجاب کو دو تین یا چار صوبوں میں تقسیم نہ کیا تو پنجاب کا سائز ملک کیلئے خطرناک ہو گا چنانچہ ہمیں 2018ء سے 2023ء کے درمیان نئے صوبے بنانے چاہئیں تاہم نئے صوبوں کی بنیاد لسانی نہیں ہونی چاہیے‘ یہ انتظامی بنیادوں پر بننے چاہئیں کیونکہ لسانی بنیادیں ملک میں خانہ جنگی بھی شروع کرا دیں گی اور ملک کے اندر آبادی کی نقل مکانی بھی شروع ہو جائے گی‘ یہ ۔۔اس ایشو کا ایک پہلو تھا‘ ہم اب دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں‘ موجودہ اسمبلی یکم جون2013ء کو بنی‘ اب تک ۔۔اس کے 468سیشنز ہوئے اور یہ حقیقت ہے جنوبی پنجاب محاذ میں شامل کسی ایم این اے نے ۔۔ان پانچ برسوں میں اسمبلی میں ایک بار بھی جنوبی پنجاب کی آواز نہیں (اٹھائی) ۔۔ قومی اسمبلی میں بہاولپور‘ فاٹا‘ کراچی اور ہزارہ صوبے کی آوازیں اٹھتی رہیں ۔۔ لیکن جنوبی پنجاب کے کسی رکن نے جنوبی پنجاب کی بات نہیں کی ۔۔ پھر اچانک الیکشن سے تین ماہ پہلے جنوبی پنجاب اور جنوبی پنجاب محاذ کہاں سے آ گیا‘
کہیں یہ ووٹ حاصل کرنے اور سیاسی بلیک مینگ کا کوئی نیا طریقہ تو نہیں‘ ہم آج کے پروگرام میں ۔۔ان دونوں نقطوں پر بات کریں گے جبکہ آج عمران خان اور میاں نواز شریف نے جوکہا ہم ۔۔اس پر بھی بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔