لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان نے 1998ء میں بھرپور بیرونی دباؤ کے باوجود ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے ملکی دفاع کو بھی ناقابل تسخیر بنا دیا، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اہم کردار تھا، انہوں نے ملک پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے اپنی تمام تر قوت لگا دی، ان کے اس مشن میں پاک فوج کی جانب سے ان کے ساتھ تعینات کیے جانے والے افسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر نے بھی ان کا ساتھ بھرپور طریقے سے دیا اور اس سارے عمل میں ان کا کردار بھی نہایت قابل تعریف ہے۔
لاہور جم خانہ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعزاز میں دی جانے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر نے انکشاف کیا کہ میں اس بات سے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ پردہ ہٹا رہا ہوں کہ جب پاکستان ایٹم بم بنا رہا تھا تو اس وقت دشمن کی جانب سے کہوٹہ لیبارٹریز کو نشانہ بنائے جانے کا بہت زیادہ خطرہ تھا جس کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ اسی طرح کا ایک اور کہوٹہ اور بنایا جائے جس کے ذریعے دشمن کا دھیان بٹ جائے اور اس سے خطرے کو بھی کم کیا جا سکے۔ اس کے بعد بالکل ایسی ہی ایک بلڈنگ بنائی گئی جس میں سائنسدان اسی طرح ایٹم بم کی تیاری کے لیے کام کرتے تھے لیکن اصل میں وہ دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس تقریب سے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے کہا کہ 1984ء میں پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا تھا اور ہم نے ضیاء الحق کو پیغام پہنچا دیا تھا کہ جب بھی آپ ایٹمی دھماکے کرنا چاہیں ہمیں بتا دیجئے گا، تیاری کر لی جائے گی لیکن اس وقت ایٹمی دھماکے نہیں ہو سکے مگر حکومت میں 1998ء میں یہ بات چل رہی تھی کہ اگر کوئی اچھا پیکج مل جائے تو دھماکے روکے جا سکتے ہیں لیکن میں نے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک انتہائی سخت خط تحریر کیا، اس میں، میں نے انہیں خطرات سے متعلق بتایا اور دھماکوں کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا، جس کے بعد چاغی میں ایٹمی دھماکے کیے گئے۔