اسلام آباد (آئی این پی )نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نامزد ملزمان سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف قطری خط سمیت 3 اضافی دستاویزات بطور شواہد پیش کرنے کے لئے درخواست دائر کردی۔ منگل کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف قطری خط سمیت تین اضافی دستاویزات بطورشواہد پیش کرنے کیلئے درخواست دائر کی گئی۔
نیب کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 17 جولائی 2017 کو قطری شہزادے حمد بن جاسم کا واجد ضیا کو لکھا گیا خط پیش کرنا چاہتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوا تھا۔درخواست میں کہا گیا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ کے اٹارنی جنرل آفس کا واجد ضیاء کو لکھا گیا خط بھی پیش کرنا چاہتے ہیں، برٹش ورجن آئی لینڈ کو اٹارنی جنرل آفس نے 4 جولائی 2014 کا خط بھجوایا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے مشاورت کے لئے واجد ضیاء کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے رابطہ کرنے کی اجازت دی، واجد ضیاء کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے رابطے کا اختیار دینے کا خط بھی پیش کرنے دیا جائے۔استغاثہ کے آخری گواہ اور جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کرایا۔ واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ لینڈ رجسٹری ریکارڈ کے مطابق نواز شریف نے 1993 سے 1996 تک دو فلیٹس خریدے جبکہ ملزمان خود اعتراف کرتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا اور جب فلیٹس کا قبضہ حاصل کیا گیا تو حسین نواز طالبعلم تھے۔واجد ضیاء نے کہا کہ تمام ملزمان مانتے ہیں کہ فلیٹ نمبر 16 صرف نواز شریف کے زیر استعمال رہا اور میاں شریف نے فلیٹ صرف اس وقت استعمال کیا جب وہ علاج کے لیے برطانیہ گئے تھے۔ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ملزمان نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائی اور جے آئی ٹی کے مطابق دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کا صفحہ نمبر 2 اور 3 ایک جیسا تھا جن پر تاریخیں تبدیل کی گئیں۔ واجد ضیاء کے مطابق ملزمان نے ٹرسٹ ڈیڈ پر اوور رائٹنگ کر کے 2004 کو 2006 بنایا جس پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ اپنی رائے دے رہا ہے۔استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ 2006 آف شور کمپنیز سے متعلق قانون سازی کا اہم سال تھا،نئی قانون سازی کے بعد بیئرر شیئرز کی ملکیت چھپانا ممکن نہیں تھا۔واجد ضیاء نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دی گئی نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی فرانزک ٹیسٹ کیلئے بھجوائی، ریڈلے کی رپورٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے جس کے بعد مریم نواز کو طلب کیا گیا اور انہوں نے دو ٹرسٹ ڈیڈز جمع کرائیں جو بقول ان کے اصلی تھیں۔واجد ضیاء نے کہا کہ فرانزک ٹیسٹ کے بعد جے آئی ٹی نے نتیجہ اخذ کیا کہ مریم نواز کی جانب سے جمع کرائی جانے والی ٹرسٹ ڈیڈز بھی جعلی ہیں جب کہ مریم نواز، حسین اور کیپٹن (ر) صفدر نے جعلی دستاویزات پر دستخط کر کے سپریم کورٹ میں پیش کیں۔ واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نواز نے بھی ٹرسٹ ڈیڈ کی یہی کاپیاں عدالت میں پیش کیں، حسن اور حسین نواز کی طرف سے اسٹیفن مورلے سے لی گئی قانونی رائے جامع نہیں تھی ،ْ مورلے نے ٹرسٹ ڈیڈ اور دیگر متعلقہ دستاویزات کو دیکھے بغیر رائے دی۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ مورلے کی رائے کے مطابق ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن ضروری نہیں تھی اور اس کے مقابلے میں درخواست گزار عمران خان کی طرف سے جمع کرائی گئی قانونی رائے تفصیلی تھی۔مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے عمران خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا اور واجد ضیاء عمران خان کا بیان لیے بغیر ان کی پٹیشن کے ساتھ جمع دستاویزات کا متن پیش کر رہے ہیں۔نجی ٹی وی کے مطابق دوران سماعت مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی عدالت میں گفتگو کرنے پر عدالتی عملے نے وارننگ دی اور کہا کہ ’’سائلنس پلیز‘‘۔احتساب عدالت نے 22 مارچ کو ہونے والی سماعت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ایک ہفتے کے لئے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی مسترد کردی تھی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔نیب کی جانب سے ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی احتساب عدالت میں دائر کیے جاچکے ہیں۔